عزت مآب ڈاکٹر علی چیگنی
سفیر ایران متعینہ ہندوستان
اسلامی جمہوریہ ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ایرانی عوام اپنے شاندار و روشن مستقبل کیلئے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ ایک اور جمہوری عمل سے گزر رہے ہیں۔ جہاں تک ایرانی عوام کا سوال ہے انتخابی عمل میں حصہ لینے یا اپنی پسند کے صدر کے انتخاب سے قبل وہ صدارتی امیدواروں کی قابلیت ان کی صلاحیتوں ، پروگرامس و پالیسیوں اور منصوبوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی عوام صدارتی انتخابات کیلئے مقابلہ کررہے سات امیدواروں کے اقدامات ، عہد و پیمان اور پروگرامس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ ایسے سات صدارتی امیدوار ہیں جو ان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پوری طرح اہل ہیں اور ہر امیدوار بے شمار خوبیوں و صلاحیتوں کا حامل ہے۔ ایران میں انتخابات عوام کیلئے جمہوریت کا مظہر ہوتے ہیں اور جمہوری جشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر عوام کی سماجی و معاشی اور سیاسی دائرۂ کار کے عکاس ہوتے ہیں۔ ویسے بھی انتخابات ایک پرامن اور عوامی شراکت سے پُر عمل ہے اور یہ انتخابات ایرانی عوام کی خودمختاری اور ان کے اقتدار اعلیٰ کا ایک موثر آلہ یا ذریعہ ہے۔ اس لئے ہر چار برسوں میں ایرانی عوام ایک نئے صدر اور ارکان پارلیمنٹ (ارکان مجلس) اور مقامی کونسلوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اپنی ذمہ داری کا اظہار کریں اور بہتر و روشن مستقبل کیلئے اپنے قانونی حقوق کا بہتر انداز میں نفاذ عمل میں لائے۔
اب انقلاب اسلامی کے آغاز سے 42 سال بعد ایران میں سال میں اوسطاً ایک الیکشن کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ جمہوریت سے اس ملک کے تعلق خاطر اور مطابقت کا اشارہ دیتا ہے۔ جمہوریت میں انتخابی عمل کی بہت زیادہ اہمیت و افادیت ہوتی ہے کیونکہ 1979ء کے اسلامی انقلاب سے قبل اس ملک اور اس کے عوام نے کبھی بھی ایسے سنگ میل کا مشاہدہ نہیں کیا جس میں اپنے تقدیر کے فیصلے خود ایرانی قوم نے کئے ہوں یا ایرانی عوام نے اپنے مستقبل کے تعین میں اہم کردار ادا کیا ہو۔ اس کے علاوہ ایران علاقہ کا وہ واحد ملک ہے جہاں پوری طرح کامیابی کے ساتھ متواتر اس قسم کے انتخابات بناء کسی تاخیر کے اور وقت پر منعقد کئے جاتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آفات سماوی ، وباؤں اور چار دہوں میں 8 سال تک مسلط کی گئی جنگ کے دوران بھی انتخابات کا کامیابی کے ساتھ انعقاد عمل میں لایا گیا۔ جبکہ اس طرح کے غیرمعمولی حالات میں انتخابات کے انعقاد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے عوام کی خواہشات و ارمانوں کی تکمیل اور آمریت کی راہیں مسدود کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی مداخلت کو روکنے کی خاطر اپنے ایک منفرد سیاسی نظام کو فروغ دیا ہے جو تشخص اِسلامی یا اسلامی شناخت جمہوری اقدار نے دو بڑے ستونوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں جڑیں اسلامی تعلیمات میں پیوست ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جو تاریخ میں حالات سے ٹکرا کر سیکھے گئے ہیں، کا نچوڑ ہے جس میں بدنام زمانہ اور عوام دشمن جابر حکومتوں و بیرونی قابضین کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بھرا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا یہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام ، حکمرانی کے بارے میں پوری آزادی کے ساتھ اظہار خیال کرسکتے ہیں اور اسلامی اقدار کے خطوط پر موجودہ قیادت کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ جہاں تک ایرانی دستور کا معاملہ ہے، اس دستور میں جمہوری خوبیوں کو غیرمعمولی انداز میں نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے بلکہ دستوری نظام میں اس کی توثیق بھی کی گئی ہے ۔
ملک میں داخلی یا ملکی سیاسی استحکام کے معاملے میں جو سب سے اہم نکتہ ہے، وہ حکومتی انتظامیہ اور دوسرے فیصلہ ساز اداروں میں رائے دہی اور ایرانی شہریوں کے راست عمل دخل کے ذریعہ Rotation ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایران کے انتخابی نتائج نے ہمیشہ بیرونی مبصرین کو حیرت و تعجب میں مبتلا کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی عوام کی خواہش، ایرانی سیاسی نظام سے کیسے مطابقت رکھتی ہے۔
اب جبکہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات بالکل قریب ہیں، انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کے امیدواروں کے درمیان بہتر حکمرانی کے بارے میں گرماگرم مباحث ہوئے اور اس طرح کے مباحث مختلف ٹی وی مباحثہ پروگرامس میں دیکھے گئے، اس مرتبہ صدارتی امیدواروں کے درمیان جو مباحث ہوئے، ان میں امیدواروں کی زیادہ تر توجہ معاشی استحکام، معاشی نمو اور معاشی فروغ کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی پر مرکوز رہی۔ ویسے بھی ایرانی شہریوں کے درمیان اس بات پر بھی گرماگرم مباحث ہوئے کہ ہمارے ملک کا آئندہ صدر کیسا ہو اور کس طرح ملک کو درپیش مسائل سے نمٹا جانا چاہئے۔
اور خاص طور پر ایسے وقت جبکہ ایران کو اقتصادی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور ایرانی عوام کو انقلاب اسلامی سے ملی آزادی اور غیرجانبداری سے متعلق راست بازی کا سبق سکھانے کیلئے اس کی سزا دینے کیلئے ایران پر امریکہ نے غیرمنصفانہ و غیرانسانی تحدیدات عائد کئے۔ ان تمام منفی عوامل کے باوجود ایرانی عوام نے اپنے اتحاد و اتفاق کے ذریعہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح تحدیدات و پابندیوں اور اقتصادی دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ اچھی بات یہ ہوگی کہ امکانی انتخابی نتائج سے قطع نظر امیدواروں نے معیشت کی بہترین سمت اور دیگر داخلی و خارجی پالیسی سے متعلق اُمور پر مباحث کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہے اور اس کا کریڈٹ ایرانی عوام اور ملک کی جمہوریت کو جاتا ہے۔ ان مباحث کو کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رکھا گیا اور امیدوار کسی بھی موضوع پر سوال کرنے اور ہر پہلو پر مباحث کیلئے بالکل آزاد ہیں۔
اب ایران میں ایک درخشاں سیاسی نظام کے نتیجہ میں جو استحکام اور پائیداری کا ذریعہ ہے، چار دہوں سے زائد عرصہ سے ایرانی عوام نامساعد حالات اور کئی سازشوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی خواہشات اور ارمانوں کی تکمیل اور اس کے اقدار کے تحفظ کیلئے مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ ایران اور ایرانی عوام کے خلاف وہ عناصر سازشیں کررہے ہیں جنہیں ایرانی قوم کے عزائم کے ان کے ارمانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ تو صرف اور صرف اسلامی اسٹابلشمنٹ کو زوال سے دوچار کرنے کا مقصد رکھتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے چار دہوں سے زائد عرصہ میں ایک حرکیاتی اور منفرد سیاسی نظام پر عمل کیا اور باقاعدہ طور پر تواتر کے ساتھ انتخابات انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جن میں عوام نے پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ بہرحال نتائج کچھ بھی برآمد ہوں، وہ یقینا اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام کے استحکام اور عوام کی خوشحالی و ترقی کا باعث بنیں گے۔