ایران ۔اسرائیل تنازعہ میں ترکیہ کے بھی شامل ہونے کے اندیشے

   

صدر اردغان نے حماس کو کبھی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھا ، ترک پارلیمنٹ میں یکم ؍ اکٹوبر کو اپنے خطاب میں ترکیہ پر بھی امکانی حملوں کا اسرائیل پر الزام

انقرہ: ترکیہ فلسطینیوں کا حامی اور اسرائیل کا ناقد ہے جبکہ ایران کے ساتھ دور سے ہی سلام دعا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہیکہ بڑھتے ہوئے علاقائی تنازعے میں ترک فوج کی شمولیت کا امکان کم ہی ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے متعدد ممالک مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اضافے سے متعلق خبردار کر چکے ہیں۔ اسرائیل پر ایران کے تازہ حملے کے بعد اب یہ خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ایران مشرق وسطیٰ کی علاقائی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا ترکیہ ہے اور انقرہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے فلسطینی عوام کا ساتھ دے رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردغان نے بارہا اسرائیل پر’نسل کشی‘ کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نہیں دیکھتے اور اکثر اپنے ”فلسطینی بھائیوں‘‘ کی بات کرتے ہیں۔اردغان نے حال ہی میں اپنے ہی ملک کے عوام میں خوف پیدا کر دیا جب یکم اکتوبر کو ترک پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ترکیہ پر بھی حملہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت جو کہ پاگل ہوچکی ہے، فلسطین اور لبنان کے بعد ممکنہ طور پر ہمارے وطن کو بھی اپنی مذہبی جنونیت کا نشانہ بنائے گی۔‘‘ صدر اردغان نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اناطولیہ پر قبضے کا خواب دیکھتے ہیں اور خواب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ لیکن لندن اسکول آف اکنامکس کی ماہر سیاسیات سیلین ناسی صدر اردغان کے بیانات کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ منظر نامہ ناممکن ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ ترکی پر حملہ کرنے کا مطلب نیٹو اور امریکہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس ترکی پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘ناسی نے مزید کہا کہ اردغان اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترکی کے پاس نیٹو میں دوسری سب سے بڑی فوج ہے، جو اسے نہ صرف فوجی طور پر مضبوط بناتی ہے، بلکہ اسرائیل کی طرح وہ امریکہ کا قریبی اتحادی بھی ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ایمریٹس اور استنبول بلجی یونیورسٹی کے سابق ریکٹر التر توران کا کہنا ہے کہ اردغان کے بیانات کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ صدر اردغان خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کا یقینی طور پر ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔