کے کویتاکا اپل ملکاجگری سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کے معائنہ کے دوران اظہار برہمی
نظام آباد: 4؍ نومبر (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) تلنگانہ جاگروتی صدر کے کویتا نے اپل ملکاجگری میں جاری سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ (STP) کے تعمیراتی کاموں کا معائنہ کرتے ہوئے حکومت اور بلدیہ کے طریقہ کار پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”کہیں اور منظور شدہ ایس ٹی پی کو اچانک یہاں منتقل کرنا مقامی عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔” کے کویتا نے کہا کہ اس علاقے میں تقریباً چار ایکڑ خالی اراضی موجود ہے جہاں پارک، اوپن جِم، کمیونٹی ہال اور لائبریری جیسی عوامی سہولتیں قائم ہونی چاہیے تھیں، مگر اس کے بجائے ایس ٹی پی تعمیر کیا جا رہا ہے جس سے قریبی چار کالونیوں کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”ایس ٹی پی کی ضرورت اپنی جگہ، مگر تعمیر سے پہلے کالونی کے مکینوں کی رائے لینا لازمی تھا۔”لیکن اس طرح کچھ بھی نہیں کیا۔انہوں نے نشاندہی کی کہ پہلے ہی مقامی عوام موسی ندی کی آلودگی سے پریشان ہیں ایسے میں مزید ایک ایس ٹی پی لانا عوامی صحت، زمین اور پانی کے معیار پر منفی اثر ڈالے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بڑی محنت سے گھر خریدے ہیں، مگر اُن کی پریشانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔کویتا نے خواتین کے ساتھ پولیس کے رویّے کی بھی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب خواتین نے کام رکوانے کی اپیل کی تو انہیں چار پولیس اسٹیشنوں کے چکر لگوائے گئے، یہ انتہائی افسوسناک اور غیر انسانی رویّہ ہے۔ انہوں نے ڈی جی پی سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔انہوں نے سوال کیا کہ ”آخر وہ ایس ٹی پی یہاں کیوں بنایا جا رہا ہے جو کہیں اور سَینکشن ہوا تھا؟ کیا یہاں کم از کم زمین کی جانچ بھی کی گئی؟ کویتا نے کہا کہ وزیر بلدیہ کا قلمدان بھی چیف منسٹر کے پاس ہے مگر ان تک عوام کی شکایات پہنچانا مشکل ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عنقریب میونسپل کمشنر سے ملاقات کریں گی اور اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو متاثرہ کالونیوں کے مکینوں کے ساتھ پرجا وانی پروگرام میں شکایت پیش کریں گی۔کویتا نے واضح کیا کہ ضروری ہوا تو وہ عدالت سے بھی رجوع کریں گی تاکہ تعمیراتی کاموں پر روک لگائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”موسی ندی کی صفائی ضروری ہے مگر یہ عوام کی رضامندی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اُپل حلقے میں عوامی دوروں کے دوران کئی مسائل اُن کی توجہ میں آئے ہیں اور حکومت کو جوابدہ بنانے کے لیے آواز اٹھانا ناگزیر ہے کیونکہ ”جب تک پوچھنے والا کوئی نہ ہو، حکومت بھی توجہ نہیں دیتی۔”