این پی آر کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑے گی !

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ہندوستان میں ان دنوں دو وائرس تیزی سے انسانوں کا تعاقب کررہے ہیں ایک سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کا وائرس ہے تو دوسرا کورونا وائرس ہے ۔ کورونا وائرس سے تو نمٹنے میں کامیابی ملے گی لیکن سی اے اے کے ذریعہ پھیلایا گیا وائرس اس قدر قوی ہے کہ ملک بھر میں مسلسل 100 دنوں سے احتجاج کے باوجود وائرس پھیلانے والوں اور نہ ہی اس وائرس پر قابو پانے میں کامیابی ملی ہے ۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے عوام اور حکومتوں نے احتیاطی اقدامات شروع کئے ہیں ۔ اس وباء نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں یا نہیں یہ تو معلوم نہیں لیکن عوام کے اندر وائرس سے نبرد آزمائی کا جذبہ پیدا ہوا ہے ۔ احتیاط کو ملحوظ رکھ کر عوام ہی عام مقامات پر چلنا پھرنا کم کرچکے ہیں ۔ حکومتوں نے مختلف ریاستوں میں کئی اعلانات و اقدامات کے ذریعہ عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے بھی 16 مارچ سے 31 مارچ تک ریاست کے تمام اسکولس ، کالجس ، شادی خانے ، تفریح گاہیں ، زو ، شراب خانوں کو بند کردیا ہے ۔ البتہ شاپنگ مالس ، تجارتی مارکٹس کو کھلا رکھا ہے تاکہ ریاست میں عوام کو کسی حد تک کھلی سانس لینے کا موقع مل سکے ۔ عوامی اور سیاسی اجتماعات پر بھی پابندی جیسی صورتحال ہے ۔ اس وائرس نے معیشت پر منفی اثرات ڈالے ہیں ۔ کورونا وائرس کو انسانیت کا مشترکہ دشمن مانا جارہا ہے ۔ عوام الناس سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ وائرس سے ڈرنے کے بجائے اس سے نبرد آزما ہو کر خاتمہ کریں ۔ خوف زدہ ہونے سے اچھا ہے کہ حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کریں ۔ حکومت تلنگانہ نے عوام کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے ہی 31 مارچ تک تھیٹرس ، اسکولس ، کالجس ، تفریحی مقامات ، زو اور دیگر عوام کے کثیر طور پر جمع ہونے والے مقامات کو بند رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ اس دور کئی منحوس واقعات کو جنم دینے کی شکایت کرتے ہوئے شہریوں نے اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے کہ مرکز کی حکمرانی جن طاقتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے یہ لوگ ملک کے عوام کے لیے منحوس ثابت ہورہے ہیں ۔ اس لیے آج ہر شہری پریشان نظر آرہا ہے ۔ فرقہ پرستی کی ایسی آگ سلگائی گئی ہے کہ کئی دہائیوں تک بجھائی نہ جاسکے ۔ لیکن ملک کا سیکولر طبقہ بھی فرقہ پرستوں کے منصوبوں سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اس ملک کی خوش نصیبی بھی یہی ہے کہ یہاں فرقہ پرستوں کے عارضی غلبہ کے باوجود سیکولر عوام نے اپنی مضبوطی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دہلی فساد میں ان فرقہ پرستوں کو بری طرح ناکامی ہوئی ہے اگرچیکہ فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا لیکن مقامی ہندوؤں نے اپنے پڑوسی مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے باہمی بھائی چارہ کو فروغ دیا ہے ۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ہر مذہب کا شہری حصہ لے رہا ہے ۔ برہمن بھی ساتھ ہیں ، دلت بھی اور آدی واسی بھی حکومت کی مخالف دستور و جمہوریت کوششوں کو ناکام بنانے کا بیڑھ اٹھایا ہے ۔ تقریباً 12 ریاستوں نے سی اے اے کے خلاف قرار داد منظور کی ہے ۔

تلنگانہ ریاست میں بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے 16 مارچ کو ریاستی اسمبلی میں سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف قرار داد منظور کی لیکن وہ بھی مرکز سے زیادہ ہاتھا پائی سے ڈرتے ہیں ۔ انہوں نے اسمبلی میں مدبانہ طریقہ سے مرکز کی حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ملک سیکولر بنیادوں پر قائم ہے یہاں کسی بھی شہری کو مذہب کے نام پر نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ سی اے اے مذہبی بنیاد پر ملک کے عوام کو تقسیم کررہا ہے لہذا سی اے اے میں ترمیم کی جائے یا نظر ثانی کی جائے ۔ این پی آر کے تعلق سے کے سی آر نے نرم موقف اختیار کیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ این پی آر پر عمل آوری کو روکدینے کا اعلان کرتے ہوئے حکم التواء جاری کرتے لیکن کے سی آر بھی بالآخر ایک چالاک حکمراں ہیں چالاکی ان کے رگ و پیہ میں بھری ہوئی ہے وہ کس طرح مرکز کی مودی حکومت کے فیصلہ کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں ۔ کے سی آر کی تقریر نپی تلی تھی تاہم انہوں نے جرأت مندانہ طور پر قرار داد منظور کرالی ۔ اس قرار داد سے مرکز پر یہ دباؤ ضرور پڑے گا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں شدت پیدا ہورہی ہے ۔ حکومت تلنگانہ نے ایوان اسمبلی میں سی اے اے ، این پی آر ، این آر سی کے خلاف قرار داد تو منظور کردی لیکن اس کی اطلاع دستوری عہدہ کی ذمہ دار گورنر ٹی سندرا راجن کو سرکاری طور پر نہیں دی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قرار داد کی منظوری سے قبل گورنر کو مطلع کیا جاتا تھا ، حکومت کو اپنی اس غلطی کا فوری احساس ہوا اس سے قبل گورنر نے اسمبلی و کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی ان کی تقریر میں سی اے اے کے خلاف بعض الفاظ کو حذف کرنے کے لیے زور دیا تھا ۔ حکومت کی جانب سے گورنر کو دی گئی تحریری تقریر میں سی اے اے کے خلاف بعض سخت الفاظ لکھے گئے تھے لیکن گورنر نے ان الفاظ پر اعتراض کیا تو حکومت کو مجبوراً سی اے اے کے خلاف سخت الفاظ حذف کرنے پڑے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر نے سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف قرار داد کے تعلق سے گورنر کو اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا ہو ۔ تاہم ایک دستوری اتھاریٹی کو حکومت کی کارکردگی اور اقدامات سے واقف ہونا ضرور ہوتا ہے اسی لیے گورنر نے بھی کے سی آر حکومت کو اپنے سخت تیور دکھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے منظورہ اس طرح کے قوانین پر ریاستی حکومت تنقیدیں نہیں کرسکتی اور نہ ہی ریاستی اسمبلی میں اس قانون کی مخالفت کی جاسکتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں سی اے اے کی حمایت کرنے والی ٹی آر ایس ہی کو ریاست میں اپنے رائے دہندوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ایک سیاسی مجبوری تھی اس لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاستی اسمبلی میں مجبوراً سی اے اے کے خلاف قرار داد منظور کروایا ہے ۔ ملک کی غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں جیسے مغربی بنگال ، کیرالا ، راجستھان ، پنجاب ، دہلی ، پوڈویچری اور بہار میں این آر سی ، این پی آر کے خلاف قرار داد کے ساتھ سی اے اے کے خلاف بھی قرار دادیں منظور کرائی ہیں ۔ 9 ستمبر 2019 کو گورنر تلنگانہ کی حیثیت سے جائزہ لینے والی ٹاملناڈو بی جے پی یونٹ کی صدر سندرا راجن کو شائد تلنگانہ میں اپنی پارٹی بی جے پی کی سیاسی ساکھ مضبوط کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے ۔ اسی لیے انہوں نے کے سی آر کے مخالف سی اے اے پر اعتراض بھی کیا ہے ۔ خیر تلنگانہ میں بی جے پی کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے لیے بی جے پی ایم پی بنڈی سنجے کمار کو تلنگانہ بی جے پی یونٹ کا صدر بنایا گیا ۔ انہوں نے جائزہ لیتے ہی ٹی آر ایس اور اس کے قائدین پر راست تنقیدیں شروع کی ہیں ۔ بنڈی سنجے کمار کو ریاستی اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف قرار داد منظور کرنا بہت بُرا لگا ہے ۔ انہوں نے اپنے پہلے ہی دن ٹی آر ایس قائدین کو قوم دشمن قرار دیدیا ۔ بی جے پی ریاستی یونٹ کو تلنگانہ میں اب تک مضبوط مقام نہیں ملا ہے ۔ ٹی آر ایس نے اپنے سیکولر کردار سے عوام کے اندر مضبوط جگہ بنائی ہے ۔ اب بی جے پی کے نئے صدر نے عہد کیا ہے کہ وہ ٹی آر ایس کی بنیادوں کو کمزور کردیں گے لیکن تلنگانہ کے عوام بی جے پی کی انتشار پسندانہ پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے پھر بھی بی جے پی نے تلنگانہ میں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے متنازعہ بیانات دینے کے لیے قائدین کو مقرر کیا ہے ۔ ریاستی بی جے پی کے صدر کا کہنا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی اسمبلی نے سی اے اے کے خلاف قرار داد منظور کر کے بہت برُا کیا ہے ۔ یہ قائدین این پی آر میں اپنا نام درج نہیں کرائیں تو سوال یہ ہوتا ہے کہ آیا یہ لوگ ہندوستان کے بجائے پاکستان میں پناہ لینے کی کوشش کریں گے ۔ گویا بنڈی سنجے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ این پی آر سے دور بھاگیں گے تو ان کو پاکستان میں پناہ لینے کی نوبت آئے گی ۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر بالا سبرامنیم کمرسو نے بھی کے سی آر پر تنقید کی اور کہا کہ کے سی آر نے دستور کو نظر انداز کرتے ہوئے قرار داد منظور کراتے ہوئے مرکز سے ٹکر لی ہے جو کوئی مرکز سے ٹکر لے گا یا اس کو اشتعال دلائے گا تو اس کے بارے میں بہت جلد ایک غلط رائے سامنے آئے گی ۔