ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے مودی حکومت کی نئی کوشش؟

,

   

متنازعہ رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد کے اطراف کی 67 ایکڑ اراضی اصل مالکوں کو واپس کرنے سپریم کورٹ سے اجازت طلبی

نئی دہلی، 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) رام مندر مسئلہ پر عاجلانہ پیشرفت کیلئے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر مودی حکومت نے آج سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ اسے ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ کے اطراف محصلہ ’’غیرمتنازعہ‘‘ فاضل اراضی ایک ہندو ٹرسٹ اور دیگر حقیقی مالکین کو واپس کرنے کی اجازت دی جائے، جو لوک سبھا چناؤ سے قبل نمایاں اقدام ہے۔ یہ اقدام اگر حوالگی کی اجازت دے دی جائے تو ہندو گروپوں کی جانب سے رام مندر کی کوئی نہ کوئی شکل میں تعمیر کا موجب بن سکتا ہے جبکہ آر ایس ایس اور ہندوتوا گروپوں کا مرکز پر دباؤ ہے کہ مندر کی تعمیر میں سہولت پیدا کرنے والا اقدام کیا جائے۔ 33 صفحات پر مشتمل اپنی درخواست میں مرکز نے فاضل عدالت کے 2003ء کے حکمنامہ میں ترمیم چاہی تاکہ اسے اجازت مل جائے کہ ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد ڈھانچہ کے اطراف والی 67.390 ایکڑ ’’غیرمتنازعہ‘‘ فاضل ؍ بیکار اراضی حقیقی مالکین کو واپس کردی جائے۔ عدالت نے کہا تھا کہ جب تک تنازعہ کی یکسوئی نہیں ہوجاتی، فاضل اراضی پر (بھی) جوں کا توں موقف برقرار رکھنا ہوگا۔ ایودھیا کیس میں ایک مسلم ادارہ کی پیروی کرنے والے ایڈوکیٹ نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اپنے ردعمل میں کہا کہ مرکز کا اقدام ’’سیاسی شعبدہ بازی‘‘ ہے اور 2003ء کے حکمنامہ میں ترمیم چاہنے میں 16 سال کی تاخیر پر سوال اٹھایا۔انھوں نے کہا کہ یہ سب سیاسی پینترے ہیں اور اس طرح کی درخواست کی کوئی ضرورت نہ تھی جب فاضل عدالت ایک سے زائد موقعوں پر اور حتیٰ الہ آباد ہائی کورٹ بھی ایودھیا میں متنازعہ مقام کے اطراف و اکناف جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صرف 0.313 ایکڑ اراضی متنازعہ ہے۔

یہ 0.313 ایکڑ اراضی جس پر متنازعہ ڈھانچہ (بابری مسجد) کھڑا تھا یہاں تک کہ 6 ڈسمبر 1992ء کو ’کارسیوکوں‘ نے اسے منہدم (شہید) کردیا، 2.77 ایکڑ کی پیمائش والے کمپاؤنڈ کے اندرون واقع تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جس پر ملک بھر میں ہندو۔ مسلم فسادات بھڑک اٹھے جن میں تقریباً 2,000 افراد کی جانیں تلف ہوئیں، اُس وقت کی کانگریس حکومت نے 1993ء میں قانون سازی کے ذریعے 67.703 ایکڑ اراضی حاصل کرلی تھی جس میں 2.77 ایکڑ قطعہ اراضی شامل ہے۔ مرکزی حکومت نے ایک درخواست سپریم کورٹ کے اجلاس پر پیش کرتے ہوئے اجازت طلب کی ہے کہ ایودھیا قانون 1993ء کے تحت محصلہ بعض حصے جو ضرورت سے زیادہ یا فاضل ہیں، واپس کئے جاسکیں۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے 1994 ء کے فیصلے کی یاد دہانی بھی کرائی جو اسمائیل فاروقی مقدمے میں کیا گیا تھا اور کہاکہ عدالت نے کہا تھا کہ مرکز چاہتا ہے کہ محصلہ اراضی اُس کے اصل مالکوں کو واپس کردی جائے۔ عدالت نے کہا تھا کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔ تازہ درخواست میں کہا گیا ہے، ’’ اس عدالت کی دستوری بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ فاضل علاقہ جو محصلہ 0.313 ایکڑ کے علاوہ ہو، اصل مالکوں کو واپس ؍ بحال کردیا جائے‘‘۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ رام جنم بھومی نیاس (رام مندر کی تعمیر کیلئے قائم کردہ ٹرسٹ) نے خواہش کی ہے کہ 1991 ء میں محصلہ فاضل اراضی اصل مالکوں کو واپس کردی جائے۔ فریق ’جنم بھومی نیاس‘ کی اراضی تقریباً 42 ایکڑ (فاضل ؍ زائد اراضی کا حصہ) حاصل کی گئی تھی۔ مرکز نے اپنی درخواست میں کہاکہ اُسے اراضی اصل مالکوں کو واپس کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنی درخواست میں کہاکہ اُصولی اعتبار سے اُسے اراضی کی واپسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ عدالت رام جنم بھومی نیاس اور دیگر مالکوں کو حقیقی اراضی کا تعین کرنے کے بعد متنازعہ علاقہ کا ایک خاکہ اور نقشہ تیار کرے اور متنازعہ اراضی تک رسائی کا حق اور دیگر حقوق کی اجازت دے۔ 14 اپیلیں سپریم کورٹ میں 2010 ء کے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف داخل کی گئی ہیں۔ عدالت نے یہ فیصلہ 4 دیوانی مقدمات میں سنایا تھا کہ 2.77 ایکڑ اراضی مساوی طور پر تین فریقین سنی وقف بورڈ ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا میں تقسیم کردی جائے۔ مرکزی وزیر قانون و انصاف روی شنکر پرساد نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ایودھیا ملکیت مقدمہ کی سماعت کی سست رفتاری ناقابل برداشت ہے اور سپریم کورٹ سے عاجلانہ فیصلہ سنانے کی اپیل کی تھی۔ اُنھوں نے سبری ملا مندر سے متعلق معاملات کی اِس مقدمے میں ملاوٹ کے خلاف بھی اپیل کی۔ پرساد نے وضاحت کی کہ اُنھوں نے بحیثیت شہری اپنے خیالات ظاہر کئے، بحیثیت وزیر قانون نہیں۔ اُن کے تبصرے ایسے دن منظر عام پر آئے جبکہ اتوار کو سپریم کورٹ نے 29 جنوری کی سماعت ملتوی کردی کیونکہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی ملکیت تنازعہ کے مقدمہ میں 5 رکنی دستوری بنچ کے رکن جسٹس ایس اے بوبڑے عدم دستیاب تھے۔