ایک سال ضائع کردیا گیا

   

ہر سال یہی کہتے ہیں گلشن کے نگہباں
امسال نہیں فصل بہار اب کے برس ہے
ایک سال ضائع کردیا گیا
کورونا وائرس کی دوسری لہر ملک میں ایک سال کے وقفہ کے بعد شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔گذشتہ سال جب کورونا نے شدت دکھائی تھی اس وقت عملا ملک اس کیلئے تیار نہیں تھا اور نہ ہی اس وائرس سے نمٹنے کیلئے کوئی منصوبہ یا حکمت عملی تھی اور نہ کوئی تجربہ تھا ۔ تاہم اب ایک سال بعد یہ وائرس زیادہ شدت کے ساتھ سر ابھارچکا ہے اور سارے ملک میں ہیلت ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ اس بار کورونا وائرس کی شدت اپنی جگہ لیکن یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گذشتہ ایک سال کا جو ہمارا تجربہ تھا ہم نے اس کو گنوا دیا ہے ۔ جیسے ہی پہلی لہر میں کمزوری دیکھی گئی ہم نے بھی وائرس اور اس کے اثرات کو فراموش کردیا اور ایک بار پھر سے معمولات زندگی میں مصروف ہوگئے ۔ حکومتوں نے بھی اس تعلق سے کوئی توجہ نہیں رکھی اور لاپرواہی والا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں اب یہ لہر زیادہ شدید اور مہلک ثابت ہوتی جا رہی ہے ۔ گذشتہ ایک سال قبل بھی جب یہ وائرس شدت اختیار کر رہا تھا ملک کے دواخانوں میں بستروں کی قلت تھی ‘ آکسیجن کی کمی واقع ہوگئی تھی ‘ وینٹیلیٹرس دستیاب نہیں تھی اور ٹسٹوں کی تعداد بھی توقعات کے مطابق نہیں کی جا رہی تھی اب جبکہ اس وائرس کو ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے اب بھی وہی صورتحال ہے ۔ اب بھی دواخانوں میں بستروں کی قلت ہی ہے ۔ مریضوں کو کئی کئی دواخانوں کے چکر لگانے کے بعد کہیں بستر دستیاب ہو رہا ہے ۔ اگر بستر دستیاب ہو بھی رہا ہے تو وہاں آکسیجن کی قلت پائی جاتی ہے ۔ کئی دواخانوں اور آئی سی یو میں وینٹیلٹرس ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہیں۔ ادویات کی اب بھی قلت ہے ۔ گذشتہ سال حالانکہ یہ طئے نہیں تھا کہ کورونا کے علاج کیلئے کیا کچھ ادویات دی جائیں ۔ اب جبکہ پورے دعوی کے ساتھ ویکسین کی کامیابی کا ادعا کیا جا رہا ہے اس کے باوجود یہ وائرس شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ ویکسین کی بھی قلت ہوگئی ہے حالانکہ ویکسین ہندوستان ہی میں تیار ہو رہا ہے اور ہم نے کئی ممالک کو یہ ویکسین دستیاب بھی کروایا ہے ۔ یہ سارے تجربات بتاتے ہیں کہ ہم نے گذشتہ ایک سال ضائع کردیا ہے ۔
اس وائرس سے نمٹنے کیلئے جو تیاری ہم کو کرنی چاہئے تھی ہم نے بالکل بھی نہیں کی ہے اور اسے فراموش کردیا تھا جس کا خمیازہ آج ملک کے لاکھوں کروڑوں عوام بھگتنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ کورونا کی لہر ختم ہوتے ہی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی توجہ ایک بار پھر انتخابات پر مرکوز ہوگئی تھی ۔ بہار میں انتخابات کروائے گئے ۔ لاکھوں افراد کو جلسوں اور ریالیوں میں جمع کیا گیا ۔ پھر ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کروائے گئے ۔ بنگال میں انتخابی عمل کو غیر ضروری طوالت کا شکار کیا گیا اور وہاں بھی ریالیوں میں بھاری ہجوم جمع کیا جا رہا ہے اور ملک کے وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ انتخابات کو کورونا کے پھیلاو سے نہیں جوڑا جانا چاہئے ۔ عوام کو ہجوم کے مقامات پر جانے سے گریز کا حکومت مشورہ ضرور دیتی ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم بنگال کی ایک انتخابی ریلی میں دعوی کرتے ہیں کہ اتنی بڑی ریلی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ کسی بھی ریلی میں کورونا قوانین کی پابندی نہیں کی گئی ہے ۔ نہ ماسک استعمال کیا گیا اور نہ ہی سماجی فاصلے کو برقرار رکھا گیا ۔ یہ سارا کچھ انتخابی کامیابی اور سیاسی مقصد براری کیلئے تھا ۔ ایک سال سے ہم نے جو سبق سیکھے تھے انہیں فراموش کردیا گیا ۔ آج سیاسی جماعتیں اور حکومتیں انتخابی کامیابی کیلئے عوامی صحت پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہوگئی ہیںا ور وہ اس کو غلط ماننے کیلئے بھی تیار نہیںہیں۔ سارے کورونا قوانین عوام کیلئے ہیں اور سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اس سے خود کو بالاتر سمجھ رہی ہیں اور عوامی صحت سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔
گذشتہ ایک سال سے ہونا تویہ چاہئے تھا کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کی جاتی ۔ انتہائی ابتری کا شکار صحت کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنایا جاتا ۔ دواخانوں میں بستروں میں اضافہ کیا جاتا ۔ وینٹیلیٹرس کی تیاری پر توجہ دی جاتی ۔ ملک کے عوام کو اس تعلق سے بیدار کیا جاتا ۔ جو رقومات غیر ضروری مقاصد میں خرچ کی گئیں انہیں موجودہ دواخانوںکو بہتر بنانے اور نئے دواخانوں کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا ۔ یہ سب کچھ نہیں کیا گیا اور ساری کی ساری توجہ سیاسی توسیع پسندی پر مرکوز کردی گئی ۔ ملک کے عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومتوں کے سامنے ترجیحات کیا ہیں ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے عوام ہی کی صحت کو داو پر لگانے کیلئے ہمیشہ ہی تیار رہتی ہیں۔