اس دن موسم بہت خوش گوار تھا۔ ایک کچھوا چہل قدمی کیلئے نکلا۔ وہ مزے سے پگ ڈنڈی پر چلا جارہا تھا کہ اس کی ملاقات خرگوش سے ہوگئی۔ دونوں رک گئے۔ اتفاق سے وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے، لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔’’ تم کون ہو؟‘‘ خرگوش نے پوچھا۔’’ میں کچھوا ہوں اور تم ؟‘‘ کچھوے نے جواب کے ساتھ سوال بھی کردیا۔’’ میں خرگوش ہوں۔‘‘’’ اچھا تم خرگوش ہو۔ میں نے اکثر یہ نام سنا ہے۔‘‘’’میں بھی تمھارے بارے میں سنتا رہتا ہوں۔
اچھا ہواآج ملاقات ہوگئی ، ہمارے بزرگوں میں اچھے تعلقات تھے۔‘‘ خرگوش ہاتھ ملاتے ہوئے بولا۔’’ ہاں… ان کی کہانیاں آج بھی انسان اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔‘‘ کچھوے نے کہا۔’’ تم کہاں جارہے ہو ؟ خرگوش نے پوچھا۔’’ میں شمالی نہر تک جارہا ہوں۔‘‘میں بھی ساتھ چلوں ؟ ‘‘ضرور ‘‘ کچھوا بولا۔دونوں موسم کا لطف لیتے ہوئے چل دیے۔ کچھ دور چل کر خرگوش بولا۔ ’’ ہمارے بزرگ سیدھے سادھے لوگ تھے۔مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔‘‘کچھوا خاموش رہا۔’’ تمھیں پتا ہے میں سالانہ ریس میں اوّل آیا ہوں ؟ ‘‘ خرگوش شیخی سے بولا۔ ’’ یقیناً آئے ہوگے۔‘‘’’ میںآسانی سے ریس جیت لیتا ہوں۔‘‘ خرگوش اس کے چہرے کو تکتے ہوئے بولا۔’’ہاں میں جانتا ہوں خرگوش ایک تیز رفتار جانور ہے۔‘‘ کچھوے نے کہا۔دونوں چلتے رہے۔ خرگوش بہت خوش نظر آرہا تھا وہ مسلسل بول رہا تھا۔ کبھی چلتے چلتے اچھل پڑتا ، کبھی گھاس میں لوٹ جاتا اور کبھی زوردار قہقہہ لگاتا۔’’ ہم خاموشی سے چلیں تو بہتر ہے۔‘‘ کچھوے نے کہا۔’’ میں خاموش نہیں رہ سکتا۔‘‘ خرگوش بولا۔وہ دونوں جھاڑیوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ خرگوش نے ایک گھسا پٹا لطیفہ سنایا اور زور سے ہنسا۔’’ خاموش رہو۔‘‘ کچھوے نے ڈانٹا۔’’ مجھے مت روکو، موسم بہت اچھا ہے، میں بہت خوش ہوں اور آج میرا جنم دن بھی ہے۔‘‘ خرگوش چہکا۔’’ یہ تمھارا مرن دن بھی ہوسکتا کیوں کہ ہم بھیڑیوں کے علاقے سے گزر رہے ہیں اور وہ بھوکے شکار کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔‘‘ کچھوے نے کہا۔ خرگوش نے قہقہہ لگایا۔’’ ہاہاہاہا…بھیڑیے تو میری گرد کو بھی نہیں چھو پاتے۔ ‘‘کچھوے کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔جلد ہی بھیڑیے ان کے موجودگی سے آگاہ ہوگئے۔ جوں ہی کچھوے نے ان کے دوڑنے کی آوازیں سنیں وہ چلایا۔ ’’بھاگو…‘‘ اور فوراً گردن اندر کرکے اپنے خول میں محفوظ ہوگیا۔ خرگوش پہلے تو حیران ہوا پھر سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ بھیڑیے اس کے پیچھے تھے۔وہ اسے گھیرنے کی کوشش کررہے تھے۔ میدان میں ان کی دوڑ جاری تھی۔ خرگوش کی جان پر بنی تھی وہ کسی کھوہ یا بھٹ کی تلاش میں تھا جہاں چھپ کر اپنی جان بچا سکے، لیکن میدان میں جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دوڑتے دوڑتے بھیڑیے اس کے نزدیک پہنچ گئے۔ وہ تیزی سے اس پر جھپٹے ایسا لگا جیسے خرگوش پکڑا گیا۔خوب مٹی اْڑی۔ کچھوے نے خوف سے آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن خرگوش کی قسمت اچھی تھی۔ وہ بچ نکلا۔ آخر اسے گھنی کانٹے دار جھاڑی مل گئی۔ وہ اس میں گھس گیا۔ بھیڑیے ہانپتے ہوئے باہر رک کر اس کا انتظار کرنے لگے۔کچھوے نے گہری سانس لی اور اپنی راہ پر ہولیا۔شام کو جب کچھوا واپس آیا تو دیکھا خرگوش اسی طرح جھاڑیوں میں چھپا ہے اور بھیڑیے جاچکے ہیں۔’’ باہر آجائو خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔خرگوش ڈرتے ہوئے باہر آیا۔ وہ کانٹوں سے زخمی ہوگیا تھا اور لنگڑا کر چل رہا تھا۔’’ ڈرو نہیں، بھیڑیوں کو شکار مل گیا ہے۔ وہ اب اِدھر نہیں آئیں گے۔‘‘ کچھوا بولاخرگوش خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔ اس کی ساری تیزی و طراری کہیں کھو گئی تھی۔کچھوا بولا ’’ تم اگر خاموش رہتے تو یہ نہ ہوتا۔ سیانوں کا قول ہے۔ ایک چْپ….سو سکھ۔ تم نے آج اس کا عملی نمونہ بھی دیکھ لیا۔ ایسا ایک سبق میرے دادا نے تمھارے دادا کو بھی دیا تھا ، مگر لگتا ہے تم لوگ سبق یاد نہیں رکھتے۔‘‘خرگوش کا سر شرم سے جھک گیا۔ کچھ دور چل کر اس نے کچھوے کے کان میں کہا اب یاد رکھوں گا اور ہاتھ ملاکراپنے کھوہ کی طرف چل دیا۔