سنتوش میتھیو
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے جب 1996 میں 21 نومبر کو عالمی یوم ٹی وی قرار دیا تو اس نے ایک گہری سچائی کا اعتراف کیا ۔ بیس ویں صدی کی کسی بھی ایجاد نے انسانی ادراک ‘ کلچر ‘ سیاست اور روزمرہ کی زندگی کو اتنا ڈرامائی انداز میں تبدیل نہیں کیا جتنا ٹی وی نے کیا ہے ۔ ٹی وی کی ایجاد کے کئی دہوں بعد بھی یہ بحث اب بھی برقرار ہے کہ آیا ٹی وی ایسا ایڈیٹ باکس ہے جو سوچوں کو بے حس کردیتا ہے یا پھر ایسا جادوئی باکس ہے جو شعور بیدار کرتا ہے ۔ شائد مارشل مک لوہان نے یہی کچھ کہا ہو جب انہوں نے اعلان کیا کہ ذریعہ ایک پیام ہے ٹی وی دونوں ہی ہے ۔ یہ صرف اطلاعات کو منتقل نہیں کرتا ۔ اس کی موجودگی سے ہی سماجی طرز عمل ‘ ثقافتی یادیں اور عوامی ذہن کی سوچ بدلتی ہے ۔
مک لوہان ٹی وی کو انسانی حس کی توسیع کے طور پر دیکھتے تھے ۔ خاص طور پر نظر اور آواز اور ان کی یہ دلیل تھی کہ اس سے دیکھنے والا تجربات کو شئیر کرتا ہے ۔ اسے ایک ’ کول میڈیم ‘ قرار دیتے ہوئے وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ٹی وی شراکت داری اور جذباتی رول کا تقاضہ کرتا ہے ۔ طبع شدہ الفاظ کے برخلاف جو دانشورانہ فاصلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ٹی وی اپنے دیکھنے والوں کو ایک نظاروں ‘ آوازوں اور داستانوں کے عمیق سلسلہ سے جوڑ دیتا ہے ۔ اس سے طبعی فاصلے کم ہوجاتے ہیں۔ ناظرین کی برادریاں بن جاتی ہیں۔ کلچر ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں اور گلوبل ولیج کے نظریہ کو زندہ حقیقت میں بدل دیا جاتا ہے ۔
1980 کی دہائی کے اواخر میں جب رامانند ساگر کی رامائن نشر ہوئی تو ہندوستان نے اس رجحان کو واضح طور پر محسوس کیا ۔ یہ شائد دنیا کا سب سے بڑا مواصلاتی تجربہ بن گیا ۔ سڑکیں خالی ہوگئیں۔ بازار تھم گئے ۔ اور خاندان ایک ہی اسکرین کے سامنے پڑوسیوں کے ساتھ جمع ہوگئے ۔ ہر اتوار کی صبح 45 منٹ تک ایک وسیع اور مختلف النوع ملک نے ایک جذباتی دنیا کا تجربہ کیا ۔ ہیش ٹیگز یا رجحان ساز موضوعات کے وجود سے بہت پہلے ٹیلی ویژن نے اجتماعی یادداشت پیدا کی ۔
ٹی وی نے ایک غیر رسمی ٹیچر کے طور پر بھی کام کیا ۔ صرف ایک ساتھ دیکھنے کے عمل کے ذریعہ اقدار اور شناخت کی تشکیل ہوئی ۔
ٹیلی ویژن نے دور دراز کے تنازعات کو بھی عام کمروں میں لا کر جغرافیائی سیاست کو تبدیل کردیا ۔ 1991 کی خلیجی جنگ جسے سی این این نے براہ راشت نشر کیا ایک اہم موڑ تھا ۔ تاریخ میں پہلی بار عالمی سامعین نے بروقت جنگ ہوتے دیکھی ۔ بغداد کے آسمان پر پھیلنے والے میزائیل صرف رپورٹس نہیں تھے بلکہ انہیں فوری دیکھا جاسکتا تھا ۔ کیرالا میں ایک دوکاندار یا جے پور میں بس کنڈاکٹر اچانک تیل کی سیاست ‘ فوجی اتحاد اور عالمی طاقت کی حرکیاتی پیچیدگیوں کو سمجھنے لگے تھے ۔ ٹی وی نے دنیا کو سکیڑ دیا اور ایسے واقعات تک رسائی کو جمہوری بنادیا جو پہلے سفارتکاروں یا پالیسی سازوں تک محدود تھا ۔
اس کے باوجود عالمیگیریت بھی ایک قیمت کے ساتھ آئی ہے ۔ ٹی وی کے ذریعہ ثقافتیں گھل مل جاتی ہیں لیکن یہ اکثر دھندلی ہوتی ہیں۔ فیشن ‘ کھانا ‘ مزاح اور طرز زندگی بے مثال رفتار سے سرحدوں کے پار سفر کرنے لگے ۔ شکتی مان پر پرورش پانے والا بچہ آسانی سے کیپٹن پلانیٹ پر جاسکتا ہے ۔ 1990 کی دہائی کے فراخدلانہ دور نے اس تبدیلی کو اور بھی تیز کردیا ۔ سٹیلائیٹ چینلس نے دوردرشن کی اجارہ داری کو ختم کردیا اور اچانک درجنوں خانگی نیٹ ورکس نے مقابلہ شروع کردیا ۔ خبریں جارحانہ اور تیز رفتار بن گئیں۔ تفریحی ترجیحات بدل گئیں اور نظریاتی مقابلوں کا نیا میدان سامنے آگیا ۔
ٹیلی ویژن اب صرف کلچرل نہیں رہ گیا بلکہ یہ گہرا سیاسی اثر بھی ہوگیا ہے ۔ یہیں سے نوم چومسکی کی مینوفیکچرنگ سوچ ایک جواز بن جاتی ہے ۔ چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن کی دلیل تھی کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں ذرائع ابلاغ اکثر اشراف کے سیاسی اور معاشی مفادات کی خدمت کرنے والے پروپگنڈہ نظام کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میڈیا کی ملکیت ‘ اشتہارات پر انحصار ‘ سیاسی اتحاد ‘ سرکاری ذرائع اور اختلاف رائے کے خلاف دباؤ کے گرد بنایا گیا ان کا پروپگنڈہ ماڈل قابل ذکر طور پر قابل عمل ہے ۔ ہندوستان کے بشمول کئی ممالک میں زیادہ تر بڑے نیوز چینلز کارپوریٹس کے ساتھ ‘ سیاسی جماعتوں یا طاقتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی ہی ملکیت ہیں۔ ادارتی مواد میں ان کی دلچسپیاں ظاہر بھی ہوجاتی ہیں۔
ایجنڈہ طئے کرنے کے اپنے کردار کے ذریعہ ٹی وی اس بات کا بھی تعین خود ہی کرتا ہے کہ کون سے مسائل عوام پر غلبہ رکھیں گے ۔ میڈیا شائد یہ نہیں بتاتا کہ ناظرین کو کیا سوچنا چاہئے لیکن یہ ضرور بتاتا ہے کہ کون سے عنوان سوچنے کے لائق ہیں۔ اس حقیقت سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ مباحث کس طرح سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ کن تنازعات کو غیر ضروری تشہیر حاصل ہوتی ہے اور کونسی تلخ حقیقتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے ۔ سنسنی خیز ‘ تقسیم پسندانہ مزاج اور نظریاتی شدت سے جدید ٹی وی ماحول کا اندازہ ہوتا ہے ۔
اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ٹیلی ویژن میں ایک ایسی جذباتی کشش ضرور موجود ہے جو شائد ہی کسی اور ذریعہ میں ہو۔ یہ ایسے قومی لمحات بھی تیار کرتا ہے جو لاکھوں افراد کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہیں۔ ایک کرکٹ کامیابی ہو ‘ الیکشن کی رات ہو ‘ کوئی طوفان ہو یا سائنسی کارنامہ ہو یا کسی ایک لیڈر کی تقریر ہو ۔ یہ تمام حالات مشترکہ جذبات اور اجتماعی یاد پیدا کرتے ہیں۔ ان لمحات میں مک لوہان کا گلوبل ولیج ایک بار پھر حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے ۔ ٹی وی نے سیاسی رابطوں کو یا ابلاغ کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ فرینکلن روز ویلٹ کی چیٹس نے دکھادیا کہ کس طرح سے قائدین ثالثین کو نظرانداز کرکے خود راست عوام سے بات کرسکتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ٹی وی سے ایسے قومی لمحات وجود میں آتے ہیں جو اجتماعی سماعت کو فروغ دیتے ہیں۔ ٹی وی حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک پل بن جاتا ہے اور بروقت تاثرات کو ترتیب دیتا ہے ۔
تاہم او ٹی ٹی OTT پلیٹ فارمس کی آمد نے اس عام منظرنامہ کو متاثر کرکے دکھ دیا ہے ۔ جادوئی باکس اب دیوان خانوں سے پرسنل اسکرین پر منتقل ہوگیا ہے ۔ جو خدمات فراہم کی جاتی ہیں وہ عالمی مواد ‘ تخلیقی آزادی ‘ مخصوص نسل اور ذاتی پسند کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔
او ٹی ٹی پلیٹ فارم ہر پابندی اور رکاوٹ کو ختم کرکے اپنا مواد پیش کرتا ہے ۔ وہ کسی طئے شدہ براڈ کاسٹنگ شیڈول کے تابع بھی نہیں رہتا ۔ ٹی وی ایک وسیع ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں تبدیل ہوگیا ہے اور وہ صرف ایک ڈبے تک محدود نہیں رہ گیا ہے ۔
اس کے باوجود روایتی ٹیلی ویژن آج بھی قابل قبول اہمیت برقرار رکھتا ہے ۔ دیہی علاقے اس پر انحصار کرتے ہیں۔ انتخابی مہم پرائم ٹائم مباحث کے گرد گھومتی ہے ۔ کھیلوں کے واقعات ‘ اجتماعی طور پر لائیو دیکھے جاتے ہیں۔ مشکل کے وقت میں چاہے وہ وبائی امراض ہوں یا جنگ کا دور ہو لاکھوں افراد اب بھی معتبر اطلاعات کیلئے ٹی وی کا ہی رخ کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کا مستقبل ایک تصوراتی دنیا میں ہے جہاں سٹیلائیٹ براڈ کاسٹنگ ‘ او ٹی ٹی پلیٹ فارمس ‘ مصنوعی ذہانت اور عصری ٹکنالوجی سب کچھ ساتھ موجود ہیں لیکن اس کی بنیادی ذمہ داری بدستور برقرار ہے ۔ شور شرابہ والے دور میں حقیقی اعتبار کو برقرار رکھنا اہم ہے ۔
ٹیلی ویژن کو ایڈیٹ باکس کہنا اس کے اثر کو زیادہ آسان بنادیتی ہے ۔ غیرذمہ دارانہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ گمراہ بھی کرسکتا ہے ۔ لیکن ذمہ داری سے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اطلاعات عام کرتا ہے ۔ ایک جٹ کرتا ہے اور حوصلے پیدا کرتا ہے ۔
ٹیلی ویژن کے اس عالمی دن کے موقع پر جیسے جیسے اسکرینس ‘ شہروں اور دیہاتوں میں چمک رہے ہیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹی وی نے ہمیں صرف دنیا ہی نہیں دکھائی بلکہ اس کی تشکیل بھی کی ہے ۔ اس نے ہماری زندگیوں میں جنگیں ‘ انقلابات ‘ تفریح ‘ دل کو متاثر کرنے کے علاوہ ہماری زندگیوں میں امیدیں بھی پیدا کی ہیں۔ اس نے نظریات بنائے ہیں اور سیاست پر اثر کیا ہے ۔ کلچرل تاریخ رقم کی ہے ۔ ٹی وی کا تصور بھلے ہی بدل سکتا ہے تاہم اس کا جادوئی اثر برقرار رہتا ہے ۔ ایک وقت میں ایک چمدار فریم کے ساتھ ۔