بائیڈن اور جن پنگ کا تائیوان معاہدہ کی تعمیل پر اتفاق

   

واشنگٹن : امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہیکہ انہوں نے چین کے صدر ژی جن پنگ سے تائیوان کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے تائیوان معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب تائی پے اور بیجنگ کے درمیان کژیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ صدر ژی تائیوان معاہدے پر عمل درآمد کے علاوہ کچھ اور کریں گے۔بائیڈن بظاہر امریکہ کی اس پالیسی کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کے تحت واشنگٹن سرکاری طور پر بیجنگ اور تائیوان ریلیشن ایکٹ کو تسلیم کرتا ہے۔یہ ایکٹ واضح کرتا ہیکہ امریکہ کا تائیوان کے بجائے صرف چین سے سرکاری روابط رکھنے کا انحصار اسی توقع پر ہیکہ تائیوان کے مستقبل کا تعین پرامن طریقے سے کیا جائے گا۔ایکٹ کے تحت امریکہ، تائیوان کو اپنے دفاع کیلئے وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔ البتہ امریکہ اس معاملے پر چین کی ’ون چائنا‘ پالیسی کو تسلیم کرتا ہے جس کے تحت چین کا یہ مؤقف ہیکہ تائیوان اس کا حصہ ہے۔چین کا دعویٰ ہیکہ تائیوان اس کا اپنا علاقہ ہے جس کو وہ ضروری ہوا تو طاقت سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔تائیوان کا کہنا ہیکہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اپنی آزادی اور جمہوریت کا دفاع کرے گا۔ تائیوان اس کژیدگی کا ذمہ دار چین کو قرار دیتا ہے۔تائیوان نے دعویٰ کیا ہیکہ چین کی فضائیہ کے 148 جنگی طیاروں نے اس کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں جمعہ کے بعد سے لیکر اب تک پروازیں کی ہیں۔ یہ وہی دن ہے جب چین میں وطن سے محبت کا قومی دن منایا جاتا ہے۔امریکہ نے اتوار کو چین پر زور دیا تھا کہ وہ تائیوان کے نزدیک اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کو تائیوان کے نزدیک چین کی فوجی سرگرمیوں پر گہری تشویش ہے جس سے خطہ کے امن اور استحکام کو خطرہ ہے۔صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر بائیڈن بھی صدر ژی کے ساتھ 9ستمبر کو ہونے والی 90 منٹ کی ٹیلیفون کال کا حوالہ دیتے ہوئے نظر آئے۔ 7ماہ کے عرصے میں دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلا ٹیلی فونک رابطہ تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تقابل کو تنازعہ میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔