بابری مسجد۔ رام جنم بھومی فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل،مسلمان مذاق کا موضوع بن جائیں گے: جسٹس اعجاز صدیقی

,

   

نئی دہلی: بابری مسجد۔ رام جنم بھومی ملکیت معاملہ پر فیصلہ آنے کے بعد یہ بحث چل رہی تھی کہ کیا مسلمان نظر ثانی کی درخواست داخل کریں گے یا نہیں؟ لیکن 17نومبر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند کے اہم اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ لیاگیا کہ نظر ثانی کے لئے درخواست داخل کی جائے گی۔ کیا یہ درخواست داخل کرنے کا فیصلہ ٹھیک تھا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں سابق رجسٹرار جنرل جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے بابری مسجد تنازعہ کو اپنی عزت کا سوال بنالیا ہے۔ عام آدمی کو اس مسئلہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

انہیں اس بحث میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ قانونی نقطہ نظر سے یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط۔ جسٹس سہیل اعجاز نے کہا کہ عام آدمی نے اس فیصلہ کو قبول کرلیا ہے یہ سوچ کر کہ برسوں سے چلے آرہے اس جھگڑے کا آخر کار اختتام ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض حضرات کو یہ صدمہ پہنچا کہ اس فیصلہ سے ان کی توقع کے مطابق دنگے فساد نہیں ہوئے، عام مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیسے قبول کرلیا ہے۔ کچھ غیر مسلم افراد اس معاملہ کو طویل دینے کی کوشش کرتے ہوئے مسلمانوں کو جھوٹے تسلیاں دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوئی ہے، اس لئے انہیں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کرنی چاہئے۔

مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ نظر ثانی کی اپیل کہاں تک فائدہ مند ہے؟ جسٹس اعجاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ آئین کے مطابق ہے۔آئین کی دفعہ 142سپریم کورٹ کو یہ اجازت دیتی ہے کہ انصاف کے مد نظر فریقین کو کوئی بھی حکم دے سکتاہے۔ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی معاملہ میں جن مسائل کو عدالت عظمی نے خارج کردیا ہے اب انہیں دوبارہ عدالت میں اٹھانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ میرے خیال میں فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کرنا افسوس ناک ہے۔ یہ پانچ ججس کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اس پر نظر ثانی کی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست خارج ہونے پر مسلمان مذاق کا موضوع بن جائیں گے۔ بہر حال مسلمانوں کو یہ ضد بھی پوری کرلینے دیجئے تاکہ ان کو سکون میسر ہو۔