بستی میں ڈوب گیا تالاب

   

ایف ایم سلیم
پرانے پتہ پر ایک نئے دوست سے ملنے جب میں نے اپنی گاڑی اُس بستی میں موڑ دی تو لگا کہ شائد غلط جگہ پہنچا ہوں حالانکہ وہ سارا علاقہ جانا پہچانا تھا ۔ کالج کے دنوں سے لیکر حال حال تک کبھی کبھار ہی صبح وہاں سے گذر ہو ہی جاتا دوست نے جو پتہ بتایا تھا وہ پہلے سے ہی دماغ میں تھا لیکن اسے ڈھونڈتے ہوئے میں جہاں پہنچا تھا لگتا تھا کہ سب کچھ اجنبی سا ہے ۔ دراصل مین روڈ پر سے گذرتے ہوئے جو پتے دماغ میں رچ بس گئے تھے اس میں یہ تھا کہ سڑک سے نکل کر بستی میں کچھ دور جائیں گے تو وہاں تالاب ہے اور اس کے دوسری طرف وہ بستی ہے ۔ میں تالاب کو ڈھونڈتا رہا اس گلی سے اس گلی لیکن تالاب تو دور کنواں تک نہیں تھا ۔ تین تین چار چار منزلہ عمارتیں اور تنگ گلیاں جس میں گھروں کے سامنے رکھی موٹر سیکلوں کی طویل قطار ایسا لگا کہ ان گلیوں میں شائد وہی لوگ گاڑیاں چلاسکتے ہیں جنہوں نے سرکس میں گاڑیاں چلانے یا رسی پر چلنے کی پریکٹس کی ہو کچھ لڑکے ایسا کرتے دکھائی بھی دے رہے تھے ۔
دوست سے فون پر بات کی تو انہوں نے رہنمائی کی اور کسی طرح میں ان کے گھر پہنچا وہ میری بے وقوفی پر ہنسنے لگے انہوں نے کہا کہ تالاب بھی کوئی ڈھونڈنے کی جگہ ہے جہاں پر تھا وہاں ڈھونڈوگے تو جان پر بھی بن آسکتی ہے ۔ جب کوئی چیز کہیں ڈوب جاتی ہے تو اس پر افسوس ہوتا ہی ہے میں نے بھی اُس بستی میں تالاب کے ڈوب جانے پر کچھ دیر تک افسوس کیا اور وہاں سے چلا آیا ۔ اس واقعہ کو پورا ایک ہفتہ گذرا ہے میں تالاب کے بستی میں ڈوب جانے کا دکھ کم نہیں کر پارہا ہوں بلکہ ایک کا سرا پکڑ کر دوسرے کئی سارے واقعات آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح گذر رہے ہیں ۔ 1984 ء میں جب پرائمری اسکول کے طالب علم کے طور پر چامینار کی مشرق کی سمت میں ایک بستی میں رکنا ہوا تھا ۔ تالاب کٹہ کے شمال میں بستی میں جانے کیلئے سیڑھیاں ہوا کرتی تھیں بچے تھے تو میزبانوں کا گھر یاد رکھنے کیلئے سیڑھیاں گنا کرتے تھے کٹہ کے دوسری طرف تالاب کے باقیات کی شکل میں کئی جگہ پانی دکھائی دیتا دیکھتے دیکھتے یہ تالاب بھی بستی میں ڈوب گیا ۔ایک زمانہ تھا جب بارش لگاتار ہوتی تو ندیوں و نالوں میں سیلاب آجاتا اور آس پاس کی ساری چیزوں کو بہا لے جاتا لیکن گرمیوں میں لوگ پانی کو ترستے اس مسئلہ سے بچنے کیلئے آدمی نے اپنی عقل سے تالاب بنانے شروع کئے حیدرآباد کو تالابوں اور باغات کا شہر کہا جاتا تھا لیکن دیکھتے دیکھتے بہت سے تالاب بستیوں میں ڈوب گئے ۔ موسی ندی ، موسی نالے میں بدل رہی ہے اور حمایت ساگر سے نکلنے والی عیسی ندی کو سمنٹ اور کنکریٹ میں غرق کرنے کیلئے ہر دن بڑی مقدار میں ملبہ پھینکا جارہا ہے۔ کہا تو یہ بھی جانے لگا ہیکہ حسین ساگر کے بالکل وسط میں گوتم بدھ کے مجسمہ کا علاقہ ایک دن بدھا چوراہا بن جائے گا اور وہاں کشتیاں چلانے والے لوگوں کو اختیاری روزگار کی شکل میں ٹریفک پولیس میں بھرتی کر کے اسی چوراہا پر ٹریفک پر کنٹرول کا کام دیا جائے گا پھر تو ڈوبنے کیلئے بھی کچھ نہیں باقی رہے گا ۔