بلڈوزر سے کی گئی انہدامی کاروائی انتظامیہ کی زیادتی :جسٹس بی وی ناگرتھنا

   

نئی دہلی :سپریم کورٹ کی جج جسٹس بی وی ناگرتھنا نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی ستائش کی جس میں ریاستی حکام کی طرف سے ملزمین کے خلاف تعزیری اقدام کے طور پر بلڈوزر سے انہدام کی مذمت کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے قبل ملزمین کی جائیدادوں کی مسماری حالیہ برسوں میں ایگزیکٹو تجاوزات کی واضح مثال ہے۔سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکام کسی فرد کے مجرمانہ پس منظر کی بنیاد پر مجرم یا جرم میں سزا یافتہ شخص کے گھر کو منہدم نہیں کر سکتے۔ بلڈوزر کی ایسی کارروائی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا گیاہے۔جسٹس ناگرتھنا نے کہاکہ یہ حالیہ برسوں میں ایگزیکٹو کی زیادتیوں کی واضح مثال ہے۔جسٹس ناگرتھنا چینائی میں جسٹس ایس نٹراجن صد سالہ میموریل میں لیکچر دے رہی تھیں۔جسٹس ناگرتھنا نے اپنی تقریر میں مختلف ٹریبونل کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے۔انہوں نے کہا کہ ٹربیونلز ریٹائرڈ ججوں کو ملازمت پر رہنے کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ان اداروں کی ساخت، خاص طور پر ان کے تکنیکی یا دیگر ارکان کی اہلیت کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔جسٹس ناگرتھنا نے کہاکہ ٹربیونلز کے دور میں، یہ مسلسل کہا جاتا ہے کہ ایگزیکٹو فیصلے کے میدان میں مداخلت کرتا ہے۔
اور اس لیے اس پر ایگزیکٹیو تعصب رکھنے والے افراد کو مقرر کر کے عدالتی کاموں کو غصب کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹربیونلز ہائی کورٹس پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ابتدائی طور پر سروس ٹربیونلز، سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونلز سے شروع ہوا اور یہ تجربہ کچھ ریاستوں میں ناکام ہو گیا اور مقدمات واپس ہائی کورٹس میں چلے گئے۔ پھر یہ ایک ٹربیونل سے دوسرے ٹربیونل میں چلا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ معاملات میں ٹربیونل ریٹائرڈ ججوں کی بحالی کا ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے،لیکن ساتھ ہی تکنیکی طور پر یا دوسری صورت میں اس کے ممبر کون ہیں، یہ ایک سوال ہے۔جج، جو ہندوستان کی پہلی خاتون چیف جسٹس بننے کے لیے بھی تیار ہیں، نے کہا کہ جمہوریت میں مختلف آراء کو مدنظر رکھا جانا چاہیے نہ کہ ایک مقبول رائے۔