بنگلورو میں میرے تین غیر معمولی دوست

   

رامچندر گوہا
حسب نسب کے لحاظ سے میں رام چندر گوہا بنگلورو کی چوتھی نسل سے تعلق والا مکین ہوں میرے پردادا ایک قانون داں یا وکیل بننے کی خاطر تھنجاوور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے 19 ویں صدی میں بنگلورو منتقل ہوئے تھے۔ پردادا کے بچوں کی اسی ٹاؤن میں پرورش ہوئی اور یہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی ان ہی میں میرے والد محترم بھی شامل تھے جنہوں نے سینٹ جوزف کالج اور بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں تعلیم حاصل کی۔ اگر نتھیال کا اس شہر سے تعلق دیکھا جائے تو میری والدہ کا اس شہر سے تعلق 1962 سے ہے جب ان کے والدین سبکدوشی کے بعد یہاں آکر آباد ہوگئے اس دور میں بنگلورو کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ شہر ایک non fan station اور وظیفہ یابوں کی جنت ہے۔ بنگلورو سے میرا خاندانی رشتہ تقریباً 150 سال پرانا ہے۔ تاہم میری خود کی پرورش دہرادون میں ہوئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں اپنے دادا، دادی، چاچاؤں، پھوپھوؤں اور چچازاد بھائی بہنوں کے ساتھ وقت گذارنے ہر موسم گرما میں جنوبی ہند آیا کرتا تھا جبکہ بنگلورو میں مستقل قیام کے لئے ہم 1995 میں آئے اب میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر میں ہم نے تیس سال گذاردیئے ہیں اور تیس برسوں کے دوران شہر بنگلورو میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اگرچہ میری بیوی حقیقی طور پر ایک ٹامل ہے لیکن اس کا بچپن بھی بنگلورو میں گذرا، تیس برسوں کے دوران اس شہر میں جو نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں ان میں سے ایک بڑی تبدیلی تو خود اس کے نام میں تبدیلی ہے پہلے یہ شہر بنگلور ہوا کرتا تھا اب اس کا نام تبدیل کرکے بنگلورو رکھ دیا گیا جس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ بنگلورو شہر میں اب بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جن میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں ائی جیسے درجہ حرارت، موسم، لال باغ اور کبن پارک کی خوبصورتی اور اس کے کتب خانوں کا معیار و تنوع اور شائد سب سے بڑھ کر اس شہر کے زیادہ تر مکینوں کی کشادہ دلی اور ملک کے دوسرے مقامات سے آنے والوں کا جس طرح وہ خیرمقدم کرتے ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی طرح بنگلورو کے مکینوں کے غیر متعصب مزاج نے بھی اس شہر کو ایک خوبی سے نوازا ہے۔ تیس برسوں سے یعنی تین دہوں سے بنگلورو کا مکین رہنے کا جشن منانے کی خاطر میں اس کالم کو اس شہر کے تین غیر معمولی مکینوں کے نام کرتا ہوں اور ان میں سے پہلی وہ شخصیت ہے جو اس شہر سے بنگلورو منتقل ہوئے تھے جو کلکتہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ کلکتہ سے کولکتہ ہوگیا۔ اس شخصیت کا نام BIREN DAS ہے اور وہ مشہور و معروف کنفکشنرس کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1970 کے اوائل میں ان کے والد نے جو کے کے سی داس اینڈ کمپنی چلاتے ہیں، حکومت مغربی بنگال میں دودھ کے سپلائی سے متعلق سخت کنٹرول کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ کمپنی کی ایک شاخ ریاست مغربی بنگال کے باہر کھولی جائے چنانچہ مسٹر بیرین کو جو اس وقت 19 بیس سال عمر کے تھے کے داس کمپنی کی بنگلور شاخ شروع کرنے اور چلانے کے لئے بنگلورو بھیجا گیا۔ ابتداء میں اس برانچ کا آغاز چرچ اسٹریٹ اور سینٹ مارک روڈ کے ایک کونے سے ہوا (یہ آج بھی کمپنی کی مرکزی شاخ ہے یہ اور بات ہیکہ بنگلورو کے کئی ایک مقامات پر اس کی شاخیں کھولی گئیں) جس وقت 1995 میں راقم الحروف بنگلور منتقل ہوا تھا بیرن داس کو بنگلور منتقل ہوئے 20 سال کا عرصہ ہوچکا تھا میں انہیں کبھی کبھا Cubbon Park میں چہل قدمی کرتے دیکھا کرتا تھا۔ چنانچہ جلد ہی بیرن داس میرے لئے بھی Berunda بن گئے جب بھی Cubbon Park میں ملاقات ہوتی ہم بات شروع کردیتے اور کافی دیر تک گفتگو میں محو رہتے۔ میں ان کی شرافت دوستی دوستوں کے ساتھ محبت و مروت فیاضانہ طبعیت اور مہمان نوازی سے کافی متاثر ہوا۔ مثال کے طور پر وہ تہواروں موسیقی ریز بیٹھکوں میں مدعو کرنا نہیں بھولتے تھے جبکہ نادر و نایاب تحقیقی مواد Research Materials بطور تحفہ پیش کیا کرتے تھے جب 1972 میں بیرن داس بنگلوری بن گئے چرنجیو سنگھ برسوں پہلے ہی اس شہر کے شناسا بن گئے تھے۔ وہ مغربی بنگال سے بنگلور منتقل نہیں ہوئے بلکہ آئی اے ایس کرناٹک کیڈر میں شمولیت کے لئے پنجاب سے آئے تھے۔ بنگلور آمد کے ساتھ ہی ان کی پہلی پوسٹنگ یا تعیناتی اس وقت کے چیف منسٹر دیوراج ارس کے دفتر میں ہوئی جہاں سر پر تزین (پگڑی) باندھے اس سکھ آئی اے ایس آفیسر نے مسٹر کرسٹوفرین کو رپورٹ کیا جو گوا سے تعلق رکھنے والے ایک کیتھولک عیسائی تھے جبکہ مالابار (کیرالا) سے تعلق رکھنے والے پی کے سرینواس کے ساتھ وہ کام کررہے تھے اس طرح یہ میسور کی اسپرٹ تھی (جیسا کہ اس وقت ریاست کرناٹک میسور کہلاتی تھی) اور یہی اسپرٹ یہی جذبہ ہمیشہ کرناٹک کا بھی ہوسکتا ہے۔ بعد کے برسوں میں چرنجیو سنگھ نے کافی شہرت حاصل کی کرناٹک بھر میں ایک غیر معمولی ذہانت اور کئی ایک خوبیوں کے حامل آئی اے ایس عہدہ دار کے طور پر اپنی ایک خصوصی پہچان اور شناخت بنائی۔ انہیں ریاست کے بیشتر مقامات پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ وہ جہاں بھی گئے دوست بنائے ان کے دوستوں میں بلالحاظ مذہب و ملت، ذات پات، رنگ و نسل سب لوگ شامل تھے۔ انہوں نے کرناٹک کی زبان کنڑا پر نہ صرف عبور حاصل کیا بلکہ اس زبان کے اسکالر بن گئے ساتھ ہی وہ جرمن اور فرنچ جیسی زبانوں پر بھی کافی عبور حاصل کرچکے تھے۔ وہ بنگلہ زبان اچھی طرح پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے دوسری زبانیں بھی سیکھنے کو ترجیح دی وہ اپنی مادری اور آبائی زبان پنجابی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ مسٹر چرنجیوی سنگھ کلاسیکی موسیقی اور آرٹ کے بھی ماہر تھے اور خود کو UNESCO میں ہندوستان کا غیر معمولی سفیر بھی ثابت کیا۔ سرکاری خدمات سے سبکدوشی کے بعد شہر بنگلورو کی ادبی تنظیموں سے وابستگی اختیار کی۔ پنجابی میں اپنی شاعری شائع کروائی یہاں تک کہ کنڑی زبان میں اخبارات کے لئے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ بہرحال چرنجیوی سنگھ کو کرناٹک کا سب سے پسندیدہ پبلک سرونٹ کہا جاسکتا ہے حالانکہ وہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ جون 1984 میں اندرا گاندھی حکومت کی جانب سے گولڈن ٹمپل پر حملہ کے بعد چرنجیوی سنگھ اپنے ساتھی سکھ مکینوں کے ساتھ مل کر گورنر کرناٹک سے ملنے گئے جس نے دہلی میں نیتاؤں اور باباؤں کو برہم کردیا اور پھر چیف منسٹر رام کرشنا ہیگڈے کے پاس ایک سرکاری نمائندہ روانہ کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ چرنجیوی سنگھ کو برطرف کردیا جائے یا کم از کم ان کی شدید تنبیہہ کی جائے۔ ہیگڈے نے بظاہر یہ جواب دیا کہ ایک پبلک سرونٹ ایک شہری بھی ہوتا ہے اور دستور نے سارے شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دی ہے اور مسٹر سنگھ نے دستور میں دیئے گئے اس حق کا استعمال کیا اس طرح مسٹر چرنجیوی کو برطرف کیا جانا تو دور خود چیف منسٹر نے انہیں اپنے انتظامیہ اور ریاست کا رتن تصور کیا۔ تیسری اہم شخصیت جس کی بنگلور میں آمد ہوئی ان کی پرورش دہلی میں ہوئی جبکہ ان محترمہ کی مادری زبان مراٹھی تھی۔ اپنی کم عمری سے ہی ٹھیٹرس میں ان کی دلچسپی غیر معمولی طور پر بڑھ گئی۔ اس میدان میں اروندھتی راؤ کی شنکرناگ سے ملاقات ہوئی اور وہ شنکر ناک کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔ 1980 میں دونوں کی شادی ہوئی چونکہ شنکر کنڑیگا تھے اس لئے اروندھتی اور ٹھیٹر اور فلموں میں کام کرنے کی خاطر بنگلور منتقل ہوئیں۔ دونوں کا کیریئر نقطہ عروج پر پہنچ گیا لیکن شادی کے ایک دہے بعد شنکر ایک سڑک حادثہ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اروندھتی راؤ نے شنکر کی وراثت کو آگے بڑھانے اور یادوں کو زندہ رکھنے کی خاطر بڑی کوششوں کے بعد 2004 میں رنگا شنکرا جیسا ادارہ کھولا۔ دو دہوں کے دوران وہاں ہندوستان کی تمام زبانوں میں ڈرامے پیش کئے گئے جس میں مشہور و معروف ہدایت کاروں و اداکاروں نے حصہ لیا۔ نوجوان اور غیر معروف اداکاروں اور ہدایت کاروں کو بھی مواقع فراہم کئے گئے۔ اروندھتی راؤ ہندی، کنڑا، انگریزی، مراٹھی، گجراتی اور اردو جیسی زبانوں کے ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔