ڈھاکہ: بنگلہ دیش ابھی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئی حکومت کی صورت میں نئے سرے سے ابھرنے کی کوششوں میں تھا کہ خوف ناک سیلاب نے اسے ڈبو دیا ہے ، منگل کو سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 71 ہو گئی ہے ، اور لاکھوں لوگ اب بھی تباہ شدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔مون سون کی مسلسل بارشوں اور اپ اسٹریم آبی گزرگاہوں سے آنے والے سیلاب نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بڑی تباہی مچا دی ہے ، جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اور تقریباً 50 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔دارالحکومت ڈھاکہ میں منگل کو ہونے والی موسلادھار بارش نے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، سڑکیں گھٹنے سے لے کر کمر تک پانی میں ڈوب گئی ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے ، ہزاروں ایکڑ کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، وزارت زراعت کے ابتدائی تخمینہ کے مطابق 33.5 ارب ٹکا (282ملین ڈالر) کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے ، جس سے 1.4 ملین سے زیادہ کسان متاثر ہوئے ہیں۔سیلاب سے متاثرہ 11 اضلاع میں 5 لاکھ 80 ہزار سے زائد خاندان اب بھی بے گھر ہیں جنھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور خشک کپڑوں کی فوری ضرورت ہے ۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، تقریباً 500 طبی ٹیمیں علاج کی فراہمی میں مدد کر رہی ہیں، فوج، فضائیہ، بحریہ اور سرحدی محافظ بھی امدادی سرگرمیوں میں مدد کر رہے ہیں۔بنگلہ دیش کے حکام نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے پر توجہ مرکوز کر دی ہے ، اس طرح کی آفات کے بعد عام طور سے یہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں، متاثرہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے ۔