بچپن میں قید فلسطینی نورھان اسرائیل سے رہا

,

   

غزہ: اسرائیلی زندانوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کا المیہ یہ ہیکہ انہیں قید میں کئی سال گذارنے کے بعد کہیں جا کر رہائی نصیب ہوتی ہے۔ کئی ایسے قیدی ہیں جنہیں ان کی بلوغت کی عمرسے قبل حراست میں لیا جاتا ہے اور جب ان کی رہائی کی باری آتی ہے تو ان کی جوانی ڈھل رہی ہوتی ہے۔ کئی ایسے ہیں جنہیں بڑھاپے میں بھی رہائی نصیب نہیں ہوتی۔حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل میں رہا ہونے والی نورہان عواد اس کی زندہ مثال ہیں۔ نور کو اسرائیلی قابض فوج نے جب حراست میں لیا تو وہ کم عمر تھیں اور ان کا شمار بچوں میں ہوتا تھا مگر دیمون جیل میں کئی برس قید کاٹنے والی نوہان عواد اب جوان ہوچکی ہیں۔نورہان کو جب گرفتار کرکے دیمون جیل لے جایا گیا تو وہ اس وقت دسویں جماعت کی طالبہ تھیں اورآج جب اسے رہا کیا گیا ہے اس کی عمر چوبیس سال ہوچکی ہے۔ اس کے جسم پر اسرائیلی فوج کی طرف سے ماری گئی گولیوں کے زخم آج بھی نمایاں ہیں۔اسرائیلی فوج نے جب اس پر گولیاں چلائیں تو اس کے پیٹ، کمر اور ٹانگ پر گولیاں لگیں۔ ایک گولی ابھی تک اس کے جگرمیں ہے۔زخمی حالت میں گرفتار نورھان عواد کو گذشتہ روز ان 39 مرد اور خواتین قیدیوں میں رہا کیا گیا جو حماس کی طرف سے رہا کیے گئے 13 اسرائیلیوں کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے تھے۔نورہان عواد جیل میں قید کے دوران بھی تعلیم کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ اس نے دوران حراست 94 فی صد نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا جس کے بعد اس نے جیل ہی میں القدس اوپن یونیورسٹی میں تاریخ کے مضمون میں داخلہ لے لیا۔اسرائیلی حکام نے نورھان عواد کو 23 نومبر 2015 کو یروشلم کی ایک سڑک سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے جا رہی تھیں۔ مقامی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکام نے فلسطینی لڑکی پر یروشلم کی جافا اسٹریٹ پر چاقو سے حملہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور اسے گولیاں مار کر زخمی کردیا۔اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس میں اسے ساڑھے 13 سال قید اور 30 ہزار شیکل جرمانے کی سزا سنائی تھی تاہم سزا کے خلاف اپیل کے بعد اس کی سزا میں ساڑھے تین سال کی کمی کردی گئی تھی۔