9سال بعد عدالت کا فیصلہ‘8افراد کیخلاف الزامات وضع
بھوپال : پولیس تحویل میں تھرڈ ڈگری اذیت رسانی اور برقی شاک دینے کی وجہ سے چین چھیننے کے الزام میں گرفتار 22 سالہ نوجوان کی موت کے زائداز 9 سال بعد بھوپال کی ڈسٹرکٹ عدالت نے 8 افراد کے خلاف الزامات وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِن میں ایک سابق جیلر، پولیس عہدیدار اور ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے۔ الزامات میں قتل کی سازش، ثبوتوں کو مٹانے اور دیگر سنگین جرائم شامل رہیں گے۔ کرائم برانچ نے 4 جون 2015 کو چین چھیننے کے الزام میں 22 سالہ محسن کو حراست میں لیا تھا اور اسے بھوپال کے ٹی ٹی نگر پولیس اسٹیشن کے حوالے کردیا گیا تھا۔عدالتی تحقیقات کے مطابق محسن کو تھرڈ ڈگری اذیت دی گئی،ہیلمنٹ پہنا کر برقی شاک دیئے گئے اور مارپیٹ کی گئی۔ بعض پولیس عہدیداروں نے مبینہ طور پر محسن کے خاندان سے 2 لاکھ روپے کی رشوت طلب کی نہ دینے پر اذیت رسانی میں مزید اضافہ کردیا گیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ محسن پر جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اور بھوپال سنٹرل جیل میں قید کردیا گیا تھا۔ 22 سالہ نوجوان کو وہاں بھی مارپیٹ کی گئی جس کے نتیجہ میں 23 جون 2015 کو اس کی موت واقع ہوگئی۔ ماہرین نے بتایا کہ محسن پر ذہنی غیرمتوازن ہونے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔اس پر ایک بڑا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ چین چھیننے کا ملزم جیل پہنچنے کے بعد اچانک ذہنی طور پر غیرمتوازن کس طرح ہوگیا۔ آخر یہ کیسے ہوا؟ ایک قانونی ماہر نے سوال کیا کہ اگر محسن واقعی پاگل تھا تو پھر اس پر مجرم کی حیثیت سے مقدمہ کیسے چلایا گیا اور اگر وہ مجرم تھا تو اچانک پاگل کیسے ہوا۔ محسن کی ماں سیما رئیس نے کہا کہ عدالت نے صحیح فیصلہ کیا ہے لیکن یہ قطعی انصاف نہیں ہے۔ میرے لڑکے کو ہتھکڑی پہنا کر میز کے نیچے رکھا گیا تھا۔ ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا اور آخر کار جیل میں اس کی موت ہوگئی۔ پولیس نے بھاری رقم کا مطالبہ کیا جو ہم ادا نہیں کرسکے۔ عدالت نے پولیس اسٹیشن کے انچارج، ایک سب انسپکٹر، دو اسسٹنٹ سب انسپکٹر، ایک جیلر اور ایک ڈاکٹر کے خلاف الزامات وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔