بہار کے طلبہ 6 سال سے مذاق کا نشانہ

   

روش کمار

بہار میں طلبہ کے امتحانات نہیں لئے جاتے ہیں طلبہ صرف فارم کی خانہ پری کرکے چھ چھ سال تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس نئے تعلیمی نظام کے لئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو نوبل انعام اور ان کے نائب یعنی ڈپٹی چیف منسٹر سشیل کمار مودی کو اقوام متحدہ کا سکریٹری جنرل بنایا جانا چاہئے۔ دونوں نے کمال کا کام کیا ہے بلکہ دونوں کو بہار سے پہلے امریکی انتخابات میں بھی کامیاب ہو جانا چاہئے۔ سال 2014 میں بہار اسٹیٹ اسٹاف سلیکشن کمیشن نے 13000 ایل ڈی سیز (لوور ڈیویژن کلرکس) کی مخلوعہ جائیدادوں کا اعلان کیا۔ پرچہ کا افشاء ہوا اور کمیشن کے سکریٹری کو جیل جانا پڑا۔ وہ امتحان آج بھی جاری ہے بلکہ 29 نومبر کو ہونے جارہا ہے۔ 25000 طلبہ امتحان میں شریک ہوں گے اسی دن داروغہ کی جائیدادوں پر بھرتی کا امتحان ہے۔ طلبہ چاہتے ہیں کہ دونوں میں سے ایک کی تاریخ ملتوی ہو جائے۔ ضرور یہ تاریخ اس لئے نکلی ہیکہ امتحانات میں ووٹ مل جائے، مجھے نہیں لگتا کہ اس کے بعد بھی یہ امتحان پورا ہوگا۔

تب ہی میں کہتا ہوں کہ جب ریاست کے نوجوانوں کو 6 سال سے ایک امتحان میں الجھا کر رکھا جائے اس ریاست کے نوجوانوں سے آپ کو کوئی امید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ان میں امید کا ہر امکان ختم ہو چکا ہے۔ اس پر دکھ کا احساس ہوتا ہے لیکن کوئی نوجوانوں کی بہبود کے بارے میں فکرمند دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ نوجوانوں ذات پات اور مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ کم از کم انہیں اس کا سکھ تو مل رہا ہے۔عالمی قائد ہندوستان کے نوجوانوں کو امتحان کا چکر مکمل کرنے کے لئے 6 سال لگ رہے ہیں۔ رام جانے ان 6 سال میں نوجوان کیا کرتے ہوں گے طلبہ نے یہ 6 سال کیسے گذارے ہوں گے ان نوجوانوں کے لئے دلچسپ بھی ہوتا ہے لیکن کیا کرسکتے ہیں۔مکتوب کچھ اس طرح ہے۔
گڈ مارننگ
قابل احترام روش سر (این ڈی ٹی وی) میں بہار سے پیوکمار آپ کو سلام کرتا ہوں۔ موجودہ دور کے بادشاہی نظام میں اگر ہم طلبہ نوجوانوں کی آواز کوئی ہے تو وہ آپ ہے جس کے لئے آپ کا قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ سر، آپ سے التجا ہیکہ آپ میرے اس مطالبہ کو اپنی سطح پر کہہ دیں تاکہ کچھ تبدیلی آسکے۔ بات دراصل یہ ہے کہ بہار اسٹاف سلیکشن کمیشن 2014 میں بحالی سے دستبرداری اختیار کرنی ہے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد امتحان کا اہتمام کروایا جاتا ہے اور پرچہ افشاء کرکے امتحان مسترد کئے جاتے ہیں۔ پھر دوسری بار کافی عرصہ کے بعد ڈسمبر 2018 میں دوبارہ امتحان منعقد کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ایک طویل عرصہ بعد فروری 2020 میں جاری کیا جاتا ہے۔دوبارہ بہت زیادہ فیس 750 روپے لیکر مین امتحان کے لئے فارم بھروایا جاتا ہے اور طویل عرصہ کے بعد انتخابی لالی پاپ کے طور پر مین امتحان کی تاریخ ملتوی کردی جاتی ہے اور پھر اس تاریخ کو انتخابات کے کاموں کے نام کردیا جاتا ہے اور نئی تاریخ کا انتخابات کے بعد اعلان کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

حکومت اور محکمہ کی جانب سے ابھی تک کم درد دیا جارہا تھا کہ زخم پر نمک اور مرچ لگاکر تب بڑھا دیا گیا جب BPSSC (داروغہ) کا امتحان پہلے ہی دو دو تاریخ ملتوی کرکے تیسرے امتحان کی اڈمٹ کارڈ جاری کئے گئے۔ طلبہ کی مشکلات اور درد کی حد تو تب پار کر گئی جب چوتھی تاریخ اسی تیسری کو قرار دیا گیا جس تاریخ کو BPSSC مین امتحان مقرر کیا گیا۔
یہ آخر کس قسم کی پالیسی ہے؟ یہ لوگ ہم نوجوانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم اور ہمارے جیسے ہزاروں طلبہ دونوں امتحانات کے لئے اہل ہوئے ہیں۔ اس امتحان کے بعد اور بھی مرحلے ہیں ہم لوگ کافی انتظار اور کڑی محنت سے امتحان کامیاب کئے ہیں اور ایسے ہم ایک امتحان سے محروم ہو جائیں گے جس کا منفی اثر ہمارے دماغ پر مرتب ہوگا اور جس کا اثر ہمارے دوسرے امتحان پر بھی پڑے گا اور ہماری کامیابی حاصل کرنے کے امکانات کم ہو جائیں گے اور ہم اتنے دنوں کے انتظار کے باوجود بھی ناکام اور برباد ہو جائیں گے۔
آپ سے درخواست اور امید ہے کہ آپ اس مسئلہ پر اپنے شو میں بولیں گے اور کوئی ایک امتحان کی تاریخ کو تبدیل کرنے کی اپیل کریں گے صرف اور صرف آپ ہی ہماری آواز ہو ہم گودی میڈیا کی مذمت کرتے ہیں۔ آپ کا احسان مند رہا ہوں اور رہوں گا۔