ریاستوںکو ایس سی، ایس ٹی کی ذیلی زمرہ بندی کی پالیسی وضع کرنا ہوگا : سپریم کورٹ
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا ہیکہ عاملہ اور مقننہ فیصلہ کریں گے کہ آیا ان افراد کو جنہوں نے کوٹہ فوائد حاصل کئے حالانکہ وہ دیگر زمروں میں شامل لوگوں کے ساتھ مسابقت کرنے کے موقف میں تھے، انہیں ریزرویشن سے خارج کردیا جائے؟ جسٹس پی آر گوائی اور جسٹس آگسٹن جارج مسیح کی بنچ نے گزشتہ روز ایک عرضی کا جائزہ لیا جسے گزشتہ سال اگست میں فاضل عدالت کی سات ججوں کی دستوری بنچ سے رجوع کیا گیا تھا۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ ہم پہلے ہی ہماری رائے دے چکے ہیں کہ گزشتہ 75 برسوں کے مدنظر ایسے افراد جو پہلے ہی فوائد سے استفادہ کرچکے اور جو مسابقت کے موقف میں ہیں، ان کو ریزرویشن سے ہٹادینا چاہئے لیکن یہ فیصلہ عاملہ (ایگزیکیٹیو) اور مقننہ (لیجسلیچر) کی جانب سے کرنا ہوگا۔ دستوری بنچ نے اکثریتی فیصلہ میں کہا تھا کہ دستوری طور پر ریاستوں کو اختیار ہے کہ درج فہرست طبقات (ایس سی) میں ذیلی زمرے بنائیں تاکہ مختلف نوعیت کے حامل ایس سی طبقے میں سماجی اور تعلیمی طور پر زیادہ پسماندہ افراد کی بہبود کیلئے انہیں ریزرویشن عطا کیا جائے۔ جسٹس گوائی اس دستوری بنچ کا حصہ تھے اور انہوں نے علحدہ فیصلہ تحریر کیا تھا۔ انہوں نے کہا ہیکہ ریاستوں کو درج فہرست طبقات (ایس سیز) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹیز) میں بھی ’’برترطبقہ‘‘ کی شناخت کیلئے ضرور کوئی پالیسی وضع کرنی چاہئے اور انہیں ریزرویشن کے فائدہ سے دور رکھنا چاہئے۔ جمعرات کو درخواست گزار کی طرف سے کونسل نے فاضل عدالت کے اس فیصلہ کا حوالہ دیا جس میں اس طرح کے ’’برترطبقہ‘‘ کی شناخت کیلئے پالیسی کی بات کہی گئی ہے۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ فاضل عدالت کی رائے ہے کہ ذیلی زمرہ بندی کی اجازت ہے، عرض گزار کے وکیل نے کہا کہ دستوری بنچ نے ریاستوں کو پالیسی وضع کرنے کی ہدایت دی تھی اور تب سے تقریباً چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ ’’ہم کوئی فیصلہ کرنے آمادہ نہیں ہیں‘‘۔ جب کونسل نے عرضی سے دستبرداری اختیار کرلینے کی درخواست کی تاکہ مجاز اتھارٹی سے رجوع ہوسکے، جو اس مسئلہ پر فیصلہ کرسکے، بنچ نے دستبرداری کی اجازت دے دی۔ کونسل نے کہا کہ ریاستیں کوئی پالیسی وضع نہیں کریں گے اور آخرکار اعلیٰ ترین عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گا، جس پر عدالت نے کہا ’’لیجسلیٹرز ہیں، لیجسلیٹرز کوئی قانون بنا سکتے ہیں۔