اچانک تبدیلی سے کانگریس کیڈر حیرت میں، بی آر ایس کی اعلیٰ قیادت خاموش، بی جے پی کو فائدہ کی امید
حیدرآباد۔/15 مئی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کی 17 لوک سبھا نشستوں کی رائے دہی تکمیل کے بعد رجحانات کا جائزہ لینے میں مصروف برسراقتدار کانگریس پارٹی کو اس وقت حیرت ہوئی جب بیشتر لوک سبھا حلقوں میں بی آر ایس ووٹ بینک بی جے پی کو منتقل ہونے کی اطلاعات ملیں۔ دوسری طرف بی جے پی نے بی آر ایس کی غیر معلنہ تائید کا اعتراف کئے بغیر 9 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی جو پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر بھی ہیں انہوں نے پارٹی انچارجس اور امیدواروں کے علاوہ انٹلیجنس سے رپورٹ طلب کی تاکہ کانگریس امیدواروں کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ بیشتر حلقہ جات میں رائے دہی سے ایک دن قبل بی آر ایس کیڈر نے بی جے پی کے حق میں مہم کا آغاز کردیا تاکہ کانگریس کی شکست کو یقینی بنایا جاسکے۔ بی آر ایس کیڈر کھل کر رائے دہندوں سے بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کررہا تھا اور اس بارے میں پوچھے جانے پر وہ کوئی وضاحت کرنے سے گریز کررہے تھے۔ بی آر ایس کیڈر نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا یا پھر انہیں اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس بارے میں کوئی ہدایت ملی اس کی وضاحت نہیں ہوسکی۔ حیدرآباد میں بی آر ایس کے سینئر قائدین چناؤ میں زائد نشستوں پر کامیابی کا بدستور دعویٰ کررہے ہیں لیکن زمینی طور پر پارٹی کیڈر نے بی جے پی کے حق میں جو مہم چلائی اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ پارٹی کے ایک سینئر قائد نے اسے محض الزام کہتے ہوئے مستردکردیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جن حلقہ جات میں بی آر ایس تیسرے مقام پر ہے وہاں لمحہ آخر میں مقامی قائدین نے حکمت عملی تبدیل کرلی اور عوام کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس کو کامیابی سے روکنا بنیادی مقصد تھا کیونکہ کانگریس کو زائد نشستوں کے حصول کی صورت میں بی آر ایس سے ارکان اسمبلی کے بڑے پیمانے پر انحراف کا اندیشہ ہے۔ بی آر ایس کے کئی عوامی نمائندے اور سینئر قائدین نتائج کے انتظار میں ہیں۔ بی آر ایس قیادت انحراف کو روکنے کیلئے کانگریس کی شکست کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ عادل آباد، نظام آباد، کریم نگر، ملکاجگری، چیوڑلہ، میدک ، ظہیرآباد اور سکندرآباد کے کئی علاقوں میں بی آر ایس کیڈر کی بی جے پی کے حق میں خاموش مہم کی اطلاع ملی ہے اور بی جے پی نے مذکورہ نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ کانگریس کو سہ رُخی مقابلہ کی صورت میں10 تا 12 نشستوں پر کامیابی کا یقین تھا لیکن تازہ ترین تبدیلی کے بعد کانگریس قیادت بھی الجھن کا شکار ہے۔ پارٹی نے تبدیل شدہ حالات میں عوامی رجحان کا پتہ چلانے کیلئے سروے منعقدکرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ بی آر ایس ووٹ بینک کی بی جے پی کو منتقلی سے کتنی نشستوں پر کامیابی کے امکانات متاثر ہوں گے۔ اضلاع سے موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر چیف منسٹر نے امیدواروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مواضعات کی سطح پر پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کارکنوں سے رپورٹ حاصل کریں۔ بی آر ایس کیڈر نے انتخابی مہم کے دوران بارہا اعلان کیا کہ بی جے پی کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی لیکن رائے دہی سے عین قبل مقامی کیڈر نے جو اقدام کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کی بقاء کیلئے دشمن کے دشمن کو عارضی طور پر ہی اپنا دوست بنانے کی کوشش کی گئی۔ رائے دہی کی تبدیل شدہ صورتحال پر سیکولر اور مسلم رائے دہندوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔1