بی جے پی، رابندر ناتھ ٹیگور کے نظریہ کی مخالف

   

رام پنیانی
بنگال اسمبلی انتخابات، انتخابی افق پر بڑے قریب دکھائی دے رہے ہیں جس کے ساتھ ہی بی جے پی نے مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی تمام اہم شخصیتوں کو اپنا قرار دینے یا اپنے نظریات کے حامل قرار دینے کی کوششوں میں شدت پیدا کردی ہے لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مغربی بنگال کے اکثر و بیشتر اہم قائدین کے نظریات سے کبھی بھی بی جے پی کا تعلق نہیں رہا اور نہ ہی ان قومی ہیروز نے بی جے پی کے نظریہ کو اہمیت دی۔ ہاں صرف ایک لیڈر یا رہنما کے بارے میں اپنے نظریات کے لحاظ سے بی جے پی کو دعویٰ کرنا چاہئے اور وہ لیڈر شیام پرساد مکرجی ہیں جو بھارتیہ جن سنگھ کے بانی تھے یہ وہی بھارتیہ جن سنگھ ہے جو آج بی جے پی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر مغربی بنگال کے قداور و تاریخی شخصیتوں جیسے سوامی وویکانند، رابیندر ناتھ ٹائیگور اور سبھاش چند بوس کی بات کی جائے تو بلامبالغہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام رہنماؤں نے ہماری سوچ و فکر اور اقدار کو پروان چڑھانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ سوامی وویکانند کا جہاں تک تعلق ہے انہوں نے پوری شدت کے ساتھ ذات پات کے نظام کی مخالفت کی وہ ملک سے خاتمہ غربت کے بارے میں بہت زیادہ جوش و جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ غریبوں میں خدا دیکھتے ہیں اور غریبوں کی خدمت خلق خدا کی خدمت ہے۔

دوسری طرف نیتاجی سبھاش چندر بوس دکھائی دیتے ہیں جو ایک سوشلسٹ تھے اور انہوں نے ہندو قوم پرستی کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس طرح وہ ہندو قوم پرستی کے مکمل طور پر مخالف تھے۔ انہی خطوط پر ہمیں رابندر ناتھ ٹائیگور نظر آتے ہیں۔ نوبل لاریٹ رابندر ناتھ ٹائیگور نے ہمیشہ انسانیت اور ایک ایسے معاشرہ کی تائید کی جہاں خوف نہ پایا جاتا ہو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ رابندر ناتھ ٹائیگور کو بھی بی جے پی ایک ہندوتوا وادی کے طور پر پیش کررہی ہے حالانکہ رابندر ناتھ ٹائیگور کے نظریات اور بی جے پی کے نظریات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ نریندر مودی نے بار بار یہی کہا کہ ٹائیگور ہمیشہ سے سوراج کے حامی رہے جبکہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا یہ دعویٰ ہیکہ ٹائیگور نے ہندو راشٹر کا نظریہ یا تصور کیا (دینک لوک سکتا، مرہٹی، ناگپور، 20 جنوری 2015) حیرت کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا مرکب جس نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں کوئی کردار ادا کیا اور نہ ہی ہندوستان کو ایک قوم بنانے کے عمل میں اس کا کوئی رول ہے، اب سوراج کی باتیں کررہا ہے جو حقیقت سے بعید ہے، سچائی کے متضاد ہے۔ رابندر ناتھ ٹائیگور ایک ایسے معاشرہ کا ویژن رکھتے تھے جس کی جڑیں بڑی گہرائی تک انسانیت میں پیوست ہوں۔ وہ کسی بھی قسم کی نسلی سوچ و فکر کے پوری طرح خلاف تھے۔ نظریہ انسانیت ہی ان کے سوچ و فکر کا مبتدا و مرکز رہا۔ جہاں تک ہندوستانی تاریخ کا سوال ہے یہاں کہ رہنے والے پہلے آریائی اور پھر بعد میں یہاں آئے مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے۔ اس کے برعکس ہندو قوم پرست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آریائی باشندے ہی اس ملک کے حقیقی باشندے ہیں۔ وہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرزمین ہند کو ایک مذہب کے ہی ماننے والے لوگوں کی ملکیت ثابت کریں۔ ہندو قوم پرست مسلمانوں کو بیرونی اور حملہ آور سمجھتے ہیں۔

اپنی ناول گورا میں رابندر ناتھ ٹائیگور انتہا پسند ہندو ازم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے ناول کے ہیرو گورا کا ہندوازم موجودہ دور کی بی جے پی کے ہندوتوا کی طرح ہے۔ گورا اس وقت بکھر جاتا ہے جب اسے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس انگریز جوڑے کا بیٹا ہے جو جنگ میں مارا گیا تھا اور پھر گورا کو ایک ہندو ماں آنند موئی نے پالا پوسا۔ آج ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ ایسی سیاست ہے جو رابندر ناتھ ٹائیگور کے خواب کے پوری طرح متضاد ہے اور یہ خواب انہوں نے اپنی نظم
“Wher the Mind is without fear and the head is Held High”
میں دیکھا تھا لیکن موجودہ حکومت کے 6 برسوں کی حکمرانی میں ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ یہی ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جو لوگ قبائیلیوں اور کمزور طبقات کے قانونی حقوق کے لئے کام کررہے ہیں ان پر شہری نکسلائٹس ہونے کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔ جو لوگ دستور ہند کے دائرہ میں رہ کر بات کرتے ہیں انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دیا جا رہا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم میں انہوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا جو حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی موجودہ پالیسیوں کے تناظر میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا یا ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا اب ہو بہو سچ ثابت ہو رہی ہے ان کے خیالات موجودہ حکومت کی جارحانہ قوم پرستی کے متضاد ہیں جو اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ گھر میں گھس کے ماریں گے (یہ بات وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے بارے میں کہی تھی) ٹیگور نے اپنے کلام میں جنگ و جدال کی برائیوں پر روشنی ڈالی۔ رابندر ناتھ ٹیگور ایسی قوم پرستی کے بھی مخالف تھے جہاں طاقتور اقوام کمزور ممالک کو اپنی نوآبادیات بنادیتے اور اپنے سیاسی اور اقتصادی کنٹرول کے میدان کو وسعت دینے ان پر جنگیں مسلط کرتے تھے۔
جس وقت ماحول پر پہلی جنگ عظیم کے بادل منڈلا رہے تھے اس وقت رابندر ناتھ ٹیگور نے انسانیت کے بارے میں ایک بہت بڑا علمی کام گیتانجلی پیش کرتے ہوئے کیا اور اس ادبی کام سے انگریز شعراء بہت متاثر ہوئے۔ آج مودی اور امیت شاہ جیسے لوگ جو کچھ بھی کررہے ہیں ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ سیاسی فائدہ و نقصان کو مدنظر رکھ کر کرتے جارہے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ٹیگور نے جس مقصد کی تائید و حمایت کی تھی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیم شکشا سنسکرتی اٹھان نیاس اور اس کے سربراہ دیناناتھ باترا نے این سی ای آر ٹی ٹکسٹ بکس کو سفارش پیش کی ہے کہ وہ نصابی کتب سے ٹیگور کے بارے میں اسباق نکال دیں یا حذف کردیں۔

حد تو یہ ہے کہ ہمارے قومی ترانے جناگنا منا کے بارے میں بھی کئی تنازعات پیدا کئے گئے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں بنکم چندر جی کے وندے ماترم کو اصل ترانہ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جنا گنا منا ٹیگور نے جارج پنجم کی شان میں لکھا جنہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈر جیسے کلیان سنگھ یہی کہہ رہے ہیں کہ جنا گنا منا میں ’’ادینائک‘‘ کا جو لفظ آیا ہے جارج پنجم کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ ٹیگور نے یہ وضاحت کی تھی کہ لفظ ادینائک انہوں نے اس طاقت کے لئے استعمال کی تھی جو صدیوں سے ہمارے ملک کی قسمت سنوار رہی ہے ناکہ کسی جارج پنجم یا ششم کے لئے۔ جنا گنا منا کے خلاف سنگھ پریوار کے قائدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اس نغمہ کو ووٹ بینک کی سیاست، مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے قومی ترانہ کے طور پر عمل آوری بھی کرائی جس کمیٹی نے بطور قومی ترانہ اس نغمہ کا انتخاب کیا اس کا خیال تھا کہ یہ نغمہ ہمارے ملک کے متنوع کردار کی نمائندگی کرتا ہے۔ ٹیگور اور دوسرے قومی لیڈروں نے ہمیشہ ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ ماقبل آرین آریائی باشندوں اور مسلمانوں نے ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ بی جے پی اور اس کے حامی وندے ماترم کو اہمیت دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ہندو دیویوں کو تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ مسلمان یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنے مالک اللہ کے سواء کسی طاقت کے آگے نہیں جھکتے۔ انہی خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنا گنا منا کو قومی ترانے کی حیثیت سے منتخب کیا گیا اور وندے ماترم کا پہلا جملہ قومی نغمہ کی حیثیت سے چنا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ہمیشہ انگریز سامراج کی آمریت کی مخالفت کی اور آزادی، مساوات، اخوت اور انصاف کے اقدار کو فروغ دیا۔