بی جے پی ، تلنگانہ میں کانگریس کی جگہ لے گی

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
یوم تاسیس تلنگانہ کے موقع پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے عوام سے پر زور اپیل کی کہ وہ ان کی حکومت کو مضبوط بنائیں تاکہ وہ نظم و نسق میں پائے جانے والی رشوت کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکے ۔ ریاست کو ترقی کی بلندی تک لے جانے کا عہد ایک خوش آئند بات ہے ۔ کے سی آر کو شروع سے ہی ریاست تلنگانہ کی ترقی اور خوشحالی کی فکر ہے ۔ اس فکر سہی کے ساتھ انہوں نے اب تک کئی اسکیمات شروع کی ہیں ۔ تلنگانہ کے قیام کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر تلنگانہ کے عوام خاص کر شہیدان تلنگانہ تحریک کے پسماندگان کو یہ بخوبی علم ہے کہ ٹی آر ایس نے تلنگانہ تحریک کے دوران کئے گئے بیشتر وعدوں کو فراموش کردیا ہے اور اس نے بھی آندھرائی قائدین کی روش اختیار کرلی ہے ۔ آندھرائی قائدین سے چڑنے والے کے سی آر نے آندھرا پردیش کے چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی کو ضرورت سے زیادہ قریب کرلینے کا مظاہرہ کیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں جب تک تلگو دیشم کی حکومت تھی کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو کے تعلق سے اپنی مخالفانہ رائے کا برملا اظہار کیا تھا ۔ اب وائی ایس آر کانگریس نے آندھرا پردیش میں عوام کا بھاری خط اعتماد حاصل کر کے حکومت بنائی ہے تو آندھرائی قیادت سے دوستی کرتے ہوئے کے سی آر نے دو تلگو ریاستوں کو قریب کرنے کا دوستانہ مظاہرہ کیا لیکن الزام ہے کہ اس طرح وہ مخالف تلنگانہ قائدین کو گلے لگا رہے ہیں ۔ تلنگانہ میں آندھرائی قائدین کی سیاست کو پھر سے لانے کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔ تلنگانہ کے تمام سرکاری محکموں میں رشوت کا چلن اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ برتھ سرٹیفیکٹ سے لے کر ڈیتھ سرٹیفیکٹ بھی بغیر رشوت کے حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اس حقیقت کے پیش نظر چیف منسٹر کے سی آر نے میونسپل ، پنچایت راج اور ریونیو اڈمنسٹریشن کے لیے 3 قوانین کی جانب نشاندہی کی ہے ۔ اس سے محکموں میں رشوت کے خاتمہ میں مدد ملے گی ۔ ریاست کے ہر شہری کو یکساں ترقی دینے اور یکساں فلاح و بہبود پہونچاتے ہوئے ریاست کی تعمیر نو کا عمل بہتر کردیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی نے ریاست کی معاشی ترقی کی شرح 16.5 فیصد کو پہونچ گئی ہے ۔ آئندہ پانچ سال کے دوران بھی ریاست کی اسی خطوط پر ترقی کی رفتار برقرار رہے گی ۔ چیف منسٹر کے مشن بھاگیرتا سے آج ریاست کے کئی دیہاتوں تک پینے کا پانی سربراہ ہورہا ہے ۔ پینے کے پانی کے مسئلہ کو حل کرتے ہوئے کے سی آر نے دیہی عوام کے دل جیت لئیے ہیں ۔ تقریبا تمام دیہی علاقوں میں مشن بھاگیرتا کامیاب ہوا ہے ۔ ٹی آر ایس کی ان اسکیمات کے باوجود حالیہ مقامی بلدیات کے انتخابات میں کے سی آر اور کویتا کو ایک اور دھکہ پہونچا ہے ۔ نظام آباد لوک سبھا حلقہ سے کویتا کی شکست نے کے سی آر کو شدید صدمہ پہونچایا تھا کہ اب رائے دہندوں نے مقامی بلدیات کے انتخابات میں کویتا اور کے سی آر کو ایک اور دھکہ دیا ہے اگرچیکہ ایم پی ٹی سی ، زیڈ پی ٹی سی انتخابات میں ٹی آر ایس نے اپنی گرفت برقرار رکھی ہے لیکن پارٹی کی امیدوار کو کویتا کے آبائی موضع پوئنگل نوی پیٹ منڈل میں شکست ہوئی ہے ۔ اس موضع کو چیف منسٹر کے سی آر نے ترقیاتی اسکیم کے تحت اپنے ذمہ لیا تھا لیکن یہاں سے بی جے پی امیدوار راجو کو کامیابی ملی ہے ۔ کے سی آر نے ضلع کریم نگر میں جس موضع کو حاصل کیا تھا وہاں سے ایک آزاد امیدوار کو کامیابی ملی۔ گویا رائے دہندوں نے کے سی آر اور کویتا دونوں کو دھکہ پہ دھکہ دیا ہے ۔ کے سی آر کی ساس کے آبائی موضع کڈرویکا سرسلہ میں کانگریس امیدوار نے بازی مار لی ۔ ماہ مئی میں 31 اضلاع میں زیڈ پی ٹی سی ( ضلع پریشد ٹیر ٹوریل ) 534 حلقوں اور منڈل پریشد ٹیرٹوریل حلقوں ( ایم پی ٹی سی ) 5659 کے لیے انتخابات ہوئے تھے ۔ اس میں حکمراں ٹی آر ایس کو اکثریتی نشستوں پر کامیابی ملی مگر اہم حلقوں سے اسے شکست ہوگئی ہے ۔ ٹی آر ایس کے مضبوط گڑھ میں بی جے پی نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں جہاں کل تک کانگریس خود کو ٹی آر ایس کی متبادل پارٹی مانتی تھی وہ اس وقف سے بھی محروم ہوگئی اور یہ موقف اب بی جے پی کو حاصل ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے چار لوک سبھا حلقوں سے کامیاب ہوکر ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا تھا جب کہ کانگریس کو صرف 3 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ تلنگانہ بی جے پی یونٹ کے قائدین اس کامیابی سے بہت خوش ہیں اور وہ ریاست میں اصل اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے آنے والے دنوں میں کانگریس کی صفوں کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے لیڈروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ بی جے پی میں تلنگانہ کے اہم قائدین شامل ہوتے ہیں تو پھر بی جے پی کو تلنگانہ میں قدم جمانے سے کوئی روک نہیں سکے گا ۔ تلنگانہ کی دیگر پارٹیوں تلگو دیشم اور بائیں بازو ، کانگریس کے قائدین ایک کے بعد دیگر بی جے پی میں شامل ہوں گے اور یہ رجحان بھیانک رخ اختیار کرجائے گا ۔ بی جے پی آسانی کے ساتھ اپنی ساکھ مضبوط بنالینے میں کامیاب ہوگی ۔ اگر کانگریس اپنے قائدین کے انحراف کے عمل کو روکنے میں ناکام ہوجائے تو تلنگانہ سے اس کا صفایا ہوجائے گا اور یہ مقام بی جے پی کو مل جائے گا ۔ کانگریس پارٹی چھوڑنے کا رجحان بھیانک سیاسی بحران پیدا کردیا ہے ۔ تلنگانہ کو کانگریس سے مُکت بنانے کے سی آر کی مہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب ہورہی ہے ۔ کانگریس سے منحرف ہونے والے 12 ارکان اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شامل ہوئے تھے ۔ اب اسپیکر اسمبلی بی سرینواس ریڈی سے ملاقات کر کے یہ مطالبہ کیا کہ کانگریس لیجسلیچر پارٹی کی حکمراں تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں ضم کردیں ۔ 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں کانگریس کی اکثریت اب 18 تک گھٹ گئی ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ میں اپوزیشن کانگریس کا نام و نشان نہیں ہوگا اور دھیرے دھیرے بی جے پی اپنی بنیادیں مضبوط کرلے گی اور ایک دن خود ٹی آر ایس سربراہ بی جے پی کے لیے سب کچھ قربان کرتے دکھائی دیں گے ۔