بی جے پی کے بارے میں کے سی آر کا موقف نرم، خفیہ مفاہمت کی اطلاعات

   

ٹارگٹ کانگریس مشن پر عمل آوری، کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد چیف منسٹر کے سی آر کو خوف، کانگریس کو اقتدار سے روکنے سرگرم
حیدرآباد ۔5 ۔جون (سیاست نیوز) تلنگانہ میں تیسری مرتبہ اقتدار کے حصول کیلئے بی آر ایس سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی کے بجائے کانگریس کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے تلنگانہ میں امکانی اثرات کو روکا جاسکے ۔ چیف منسٹر کے سی آر جو ہر پروگرام میں مرکزی حکومت اور وزیراعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ، انہوں نے اچانک اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے۔ یوم تاسیس تلنگانہ تقاریب سے کے سی آر کے موقف میں تبدیلی واضح محسوس کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق کے سی آر نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے خفیہ مفاہمت کرلی ہے جس کے تحت بی جے پی تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کیلئے رکاوٹ پیدا نہیں کریگی، اس کے بدلہ میں لوک سبھا انتخابات میں بی آر ایس چند نشستوں پر بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کریگی۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر آندھراپردیش وائی ایس جگن موہن ریڈی نے بی جے پی و بی آر ایس میں مفاہمت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ شراب اسکام میں چیف منسٹر کی دختر کویتا کو بچانے ذرائع کے مطابق جگن موہن ریڈی کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے بات کرکے تلنگانہ میں نرم موقف اختیار کرنے پر راضی کرلیا۔ ذرائع کے مطابق شراب اسکام میں سی بی آئی کویتا کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گی اور مجوزہ اسمبلی انتخابات میں قومی قیادت تلنگانہ پر توجہ نہیں دیگی۔ بتایا گیا کہ بی جے پی نے تلنگانہ کے بجائے چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی چناؤ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ تینوں ریاستیں بی جے پی کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی اقتدار ہے۔ کرناٹک کی شکست سے پریشان حال بی جے پی نے تلنگانہ میں توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے راجستھان و چھتیس گڑھ میں کانگریس سے اقتدار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے ۔ ایسے میں بی آر ایس کیلئے کامیابی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ دور ہوجائے گی ۔ بی آر ایس حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں اصل مقابلہ کانگریس سے ہوگا۔ ذرائع کے مطابق کے سی آر نے وزراء اور سینئر قائدین کو ہدایت دی کہ وہ بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کریں اور صرف کانگریس پر مرکوز کی جائے۔ یوم تاسیس تلنگانہ سے خطاب اور پھر کل دورہ نرمل کے موقع پر کے سی آر نے نریندر مودی اور بی جے پی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ، برخلاف اس کے کانگریس کو خلیج بنگال میں پھینکنے کی عوام سے اپیل کی۔ بی جے پی سے متعلق کے سی آر کے موقف میں تبدیلی پر مبصرین کا کہنا ہے کہ تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے سی آر نے بی جے پی سے اندرونی مفاہمت کرلی ہے۔ کے سی آر کی تبدیل شدہ حکمت عملی کے تحت کانگریس پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے تمام تر حربے استعمال کئے جائیں گے۔ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد سے تلنگانہ میں کانگریس کا موقف مستحکم ہوا ہے اور بی آر ایس کو 30 سے زائد اسمبلی حلقوں میں نقصان کی پیش قیاسی کی گئی۔ کے سی آر نے بیک وقت بی جے پی اور کانگریس سے مقابلہ کے بجائے لوک سبھا انتخابات میں تائید کا وعدہ کرتے ہوئے بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں سرگرم ہونے سے روک دیا ہے۔ بی جے پی قائدین بھی کے سی آر اور ان کے افراد خاندان کے خلاف بیان بازی سے گریز کر رہے ہیں ۔ کے سی آر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ اسمبلی چناؤ پارٹی کے کیلئے ’’کرو یا مرو‘‘ کی صورتحال کی طرح ہے اور کے سی آر اقتدار کی ہیٹ ٹرک کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سوشیل میڈیا اور بعض قومی میڈیا میں بی آر ایس اور بی جے پی کی خفیہ مفاہمت کی خبروں پر بی آر ایس قائدین کسی بھی تبصرہ سے گریز کر رہے ہیں۔ر