بی جے پی ۔ بی آر ایس میں اتحاد ؟

,

   

کے چندر شیکھر راؤ کے امکانی دورہ دہلی پر سیاسی حلقوں میںقیاس آرائیاں

حیدرآباد۔20 فروری(سیاست نیوز) بھارتیہ جنتا پارٹی اور بھارت راشٹرسمیتی کے درمیان اتحاد کی قیاس آرائیوں کے دوران آئندہ ہفتہ سابق چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ دارالحکومت دہلی کا دورہ بھی کرسکتے ہیں اور کہا جار ہاہے کہ آئندہ ہفتہ کے دوران کے سی آر دہلی کا دورہ کرکے مختلف مرکزی قائدین سے ملاقات کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔تلنگانہ میں اقتدار سے محرومی کے بعد سابق چیف منسٹر کا یہ پہلا دورۂ دہلی ہوگا اور کے سی آر اس دورہ کے موقع پر کن سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کریں گے اس کی ابھی کوئی توثیق نہیں ہوئی ہے۔بتایاجاتا ہے کہ ریاست میں اقتدار سے محرومی کے ساتھ ہی بی آر ایس کے سرکردہ قائدین کے کانگریس سے رابطہ میں آنے کی اطلاعات کے بعد کے سی آر خاموشی سے این ڈی اے کا حصہ بننے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ پارٹی قائدین کو کانگریس میں شمولیت سے روکا جاسکے۔ذرائع کے مطابق کے سی آر کے دورہ ٔ دہلی کی تاحال کوئی توثیق نہیں ہوئی ہے لیکن قریبی ذرائع کے مطابق وہ آئندہ ہفتہ لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی کی تیاری کیلئے دہلی کا دورہ کرکے مختلف جماعتوں کے سرکردہ قائدین سے ملاقات کریں گے۔بی آر ایس قائدین کا کہناہے کہ اگر پارٹی کی جانب سے این ڈی اے میں شمولیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو تلنگانہ میں پارٹی کے زوال کا آغاز ہوجائے گا کیونکہ قومی پارٹی سے علاقائی پارٹی کے اتحاد کے بعد اکثر علاقائی پارٹیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی آر ایس قائدین کا کہناہے کہ بی آر ایس اپنے سیاسی مفاد کیلئے لوک سبھا انتخابات سے قبل این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے لیکن اس کے طویل مدتی نتائج پارٹی پر اچھے مرتب نہیں ہوں گے بلکہ پارٹی کو نقصان ہی ہوگا۔کے سی آر کا کہناہے کہ تلنگانہ میں پارٹی قائدین میں اعتماد برقرار رکھنے اور انہیں پارٹی سے جوڑے رکھنے بی آر ایس کی این ڈی اے میں شمولیت ناگزیر ہے کیونکہ ان کا کہناہے کہ اگر بی آر ایس این ڈی اے میں شامل نہیں ہوتی ہے تو کئی بی آر ایس قائدین کانگریس کی بجائے بی جے پی میں بھی شمولیت اختیار کرسکتے ہیں اور اگرایسا ہونے لگتا ہے تو تلنگانہ میں بی آر ایس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گااسی لئے سابق چندر شیکھر راؤ تلنگانہ میں تنہاء مقابلہ کی بجائے کانگریس کے خلاف بی جے پی سے اتحاد کرکے مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ اسی لئے ان کی پارٹی کے این ڈی اے کا حصہ بننے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا رہاہے ۔3