تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال

   

انسان اور معیشت… دونوں کا تحفظ ضروری
لاک ڈاؤن میں رعایتیں … مساجد میں اجازت کیوں نہیں؟

رشیدالدین
کورونا وائرس کی وباء نے ہندوستان کو معاشی اور انسانی بحران میں مبتلاء کردیا ہے۔ ملک کی تاریخ کے طویل لاک ڈاؤن نے معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو ٹھپ کرتے ہوئے معیشت کو یونان کے راستہ پر گامزن کردیا تو دوسری طرف لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم کرتے ہوئے انسانی بحران پیدا کردیا ہے۔ اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں برسر روزگار لاکھوں افراد وطن واپسی کے منتظر ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں گزشتہ تقریباً دیڑھ ماہ سے سڑک، ریل اور فضائی سفر کی سہولتیں ختم ہوچکی ہیں جس کے سبب ملک اور بیرون ملک لاکھوں افراد پھنس چکے ہیں اور آبائی مقامات پہنچنے کے منتظر ہیں۔ مرکز کو ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ پر قابو پانا ہے تو دوسری طرف معیشت کو زوال سے بچانا ہے۔ انسانی زندگیوں کا تحفظ اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں معاملات میں ذرا سی کوتاہی و لاپرواہی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی حکومت نے داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سرمایہ کاری کے ذریعہ ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ معاشی ابتر صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں دشواری محسوس ہورہی ہے۔ مرکز اور ریاستوں کو اپنی اپنی سطح پر بچت اور کٹوتی جیسے فیصلوں پر مجبور ہونا پڑا۔ ویسے ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال کو قابو میں نہیں کہا جاسکتا لیکن احتیاطی تدابیر کے طور پر ملک اس قدر طویل لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لاک ڈاؤن میں توسیع سے تو معیشت پر کاری ضرب لگے گی تو دوسری طرف پھنسے ہوئے روزگار سے محروم لاکھوں ورکرس اور لیبرس کا بحران بے قابو ہوسکتا ہے۔ ملک بھر میں پھنسے ہوئے ورکرس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔ ان حالات میں مرکز کے پاس لاک ڈاؤن میں رعایتوں کے سواکوئی چارہ نہیں۔ اندرون ملک لاکھوں مزدوروں کو آبائی مقام پہنچانا معمولی اور آسان کام نہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لاکھوں ہندوستانیوں کی وطن واپسی کا انتظام باقی ہے۔ حکومت نے فضائی راستہ کے ساتھ سمندری جہازوں کو بھی تیار رکھا ہے۔ خلیج اور دیگر ممالک سے بڑی تعداد میں واپسی سے ملک کی معیشت پر اثر پڑے گا۔ بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آئے گی جو کہ ہندوستانی معیشت کے استحکام میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ کویت پر عراق کے حملہ کے بعد چھڑی جنگ کے دوران خلیج سے 10 لاکھ افراد کیرالا واپس ہوئے تھے۔ توقع ہے کہ موجودہ بحران میں 2 لاکھ افراد صرف کیرالا واپسی کے منتظر ہیں۔ واپس ہونے والے لاکھوں افراد کو دو یا تین ہفتوں کیلئے کورنٹائن کیا جائے گا اور کورونا سے پاک ہونے پر گھر جانے کی اجازت رہے گی۔ یہ ہنگامی کارروائی کس طرح ممکن ہوگی اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ جہاں تک بیرونی زرمبادلہ کا تعلق ہے اس کا اہم ذریعہ خلیجی ممالک ہیں۔ ایک طرف کورونا بحران نے خلیج میں بیرونی ورکرس کو روزگار سے محروم کردیا تو دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف ہندوستان میں جاری نفرت کی مہم نے خلیجی حکومتوں کو ناراض کردیا ہے جس کا راست اثر ہندوستانیوں کی ملازمت پر پڑے گا۔ الغرض کورونا وائرس سے ملک کو بچانا اور معیشت کو یونان کے راستہ پر چلنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ معاشی سرگرمیوں کو محدود انداز میں بحال کرنے کیلئے مرکز نے 4 مئی سے بعض رعایتوں کا فیصلہ کیا ہے۔ مختلف ریاستوں میں پھنسے لاکھوں مزدوروں کی وطن واپسی کا اعلان تو آسان ہے لیکن منتقلی کا طریقہ کار کیا ہوگا اور ریاستیں کس حد تک تعاون کریں گی اہم سوال ہے۔

طویل لاک ڈاؤن سے معیشت کی تباہی اور عوامی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے مرکز نے تجارتی سرگرمیوں کو محدود پیمانے پر اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اعتبار سے کس حد تک درست ہے اس بارے میں طبی ماہرین بہتر رائے دے سکتے ہیں لیکن ہم صرف اتنا کہیں گے کہ جب تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دی جارہی ہے تو پھر مساجد میں عبادت کی اجازت کیوں نہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو محدود پیمانے پر سہی عبادت کیلئے کھولنا چاہیئے۔ رمضان المبارک عبادتوں کے اعتبار سے مسلمانوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے میں مساجد کو عبادات کے بغیر مقفل رکھنا کہاں تک درست ہے۔

جب تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے ذریعہ بازاروں میں گہما گہمی کی اجازت دی جارہی ہے تو پھر مسجد میں سماجی فاصلہ کی برقراری کے ساتھ نمازوں اور تراویح کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ حکومت اور حکومت کے نمائندوں کو جان لینا چاہیئے کہ عبادتوں اور دعاؤں کے ذریعہ بلاؤں کو ٹالا جاسکتا ہے۔ توحید و رسالتؐ پر یقین رکھنے والوں کی دعاؤں سے صورتحال بہتر ہوپائے گی۔ اسی لئے دعاؤں کیلئے اللہ کے گھروں کو کھول دیا جائے۔ یہ ماہِ مقدس دعاؤں کی قبولیت کا اہم ذریعہ ہے۔ خاص طور پر تیسرے دہے میں رحمت باری تعالیٰ جوش میں رہتی ہے اور روزہ داروں کی دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ عبادتوں کی اجازت کے مسئلہ پر کسی گوشہ سے آواز نہیں اُٹھائی گئی۔ سماج میں ایک سناٹا طاری ہے حالانکہ ہر شخص کو دستور نے مذہبی آزادی اور اظہار خیال کی آزادی دی ہے۔ حکومت اور پولیس کا آخر ایسا کیا خوف سوار ہے کہ ہم اپنی عبادتوں کے بارے میں بھی نمائندگی کیلئے تیار نہیں۔ حرمین شریفین کا معاملہ ہو یا دنیا کی کسی مساجد کا وہاں کی گئی دعاؤں کے ذریعہ ہی صورتحال بدل سکتی ہے۔ تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب کسی وباء کے سبب حرمین اور مساجد کو بند کیا گیا۔ جنگ و جدال کے معاملہ کو چھوڑ کر عام حالات میں کسی وباء کے بہانے حرمین کو بند کرنے کی روایت نہیں ملتی۔ مسجد اقصیٰ میں اسرائیل نے نمازوں پر پابندی عائد کی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے ہی اپنے طور پر عبادتوں پر پابندی لگادی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کو فیصلہ کرنے میں تامل ہورہا تھا لہذا حکومت کے درپر عمائدین پہنچ گئے اور وہیں پر اجلاس کرتے ہوئے عبادتیں گھر میں کرنے کا اعلان کردیا۔ ایک طرف غیر مقامی ورکرس پر آبائی مقام پہنچنے کی دُھن سوار ہے اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ورکرس سامان سروں پر اُٹھا کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوگئے اور حکومت کو رعایتوں کے اعلان پر مجبور ہونا پڑا۔ ایسا جذبہ اور مساجد میں عبادتوں کی دُھن آخر مسلمانوں پر سوار کیوں نہیں ہے۔ آخر یہ بے حِسی اور ایمان کی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم ماہِ مقدس میں بھی مساجد میں عبادتوں کیلئے تیار نہیں۔ ہم سے بہتر تو وہ مزدور ہیں جنہوں نے اپنی ضِد کے آگے حکومت کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ حکومت نے اگرچہ 5 مصلیوں کے ساتھ مساجد میں نماز کی اجازت دی ہے لیکن بیشتر مساجد آج بھی ایسی ہیں جو مستقل طور پر مقفل ہیں اور ان علاقوں میں اذان کی اجازت تک نہیں۔ جن مساجد میں5 افراد نماز ادا کررہے ہیں اُن میں 3 مستقل مصلی ہیں جو کہ امام، مؤذن اور خادم ہوتے ہیں باقی 2 افراد یا تو کمیٹی کے ذمہ دار ہیں یا پھر مسجد کو خطیر عطیہ دینے والے افراد ہیں۔ ان دو افراد کو تبدیل کرکے دوسروں کو بھی عبادت کا موقع دیا جانا چاہیئے۔ کیا دوسروں کو عبادت سے محروم کرنے پر روز قیامت باز پُرس نہیں ہوگی؟۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب پکڑ پر آئے گا تو وضو میں زائد پانی کے خرچ پر بھی سوال کرے گا۔ علامہ اقبالؔ نے شاید آج کے حالات کیلئے ہی یہ شعر کہا تھا ؎
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاںمیں نہیں ہے مری سحر کا پیام