تلسی گبارڈ اور مودی جی کے بھکتوں کی خوشی

   

محمد نعیم وجاہت

نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیم کی تشکیل کا آغاز کردیا ہے یعنی نئے امریکی انتظامیہ ( ٹرمپ انتظامیہ ) میں ذمہ داریاں تفویض کرنے کا عمل شروع کردیا ہے ۔ اُن کے ابتدائی فیصلوں سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں اسرائیل نواز عناصر کو اہم عہدوں پر فائز کررہے ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے حامیوں میں اس بات کو لیکر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ٹرمپ کی نئی ٹیم میں ان شخصیتوں کو بھی جگہ دی گئی جو ہندوستان کے تئیں نرم موقف ، نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں ٹرمپ کے لئے ایسے وقت اپنی ٹیم تشکیل دینا ایک چیلنج سے کم نہیں جب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ۔ فلسطین جنگ نے دھماکو حالات پیدا کردیئے ہیں اور اس جنگ نے لبنان ، شام ، ایران ، عراق اور یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ٹرمپ نے پرزور انداز میں کہا ہے کہ روس ۔ یوکرین جنگ کا خاتمہ اور مغربی ایشیاء میں بحالی امن کیلئے ان کا انتظامیہ کام کرے گا ۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ ٹرمپ کی زیرقیادت نئے امریکی انتظامیہ کو جنوبی ایشاء مشرق وسطیٰ ، خاص طور پر چین ، ہندوستان اور پاکستان کے تعلق سے کیا پالیسی ہوگی اور کیا ترجیحات ہوں گی ؟ ۔
ٹرمپ نے دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں سرفہرست ایلون مسک کو بھی ہندوستانی نژاد سوامی کے ساتھ اہم ذمہ داری تفویض کی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ٹرمپ نے تاحال اپنی ٹیم اپنے انتظامیہ کیلئے بعض شخصیتوں کا انتخاب کیا ہے ، اِن کے ناموں کا اعلان کیا ہے ،ان میں سے اکثر متنازعہ اور اسرائیل نواز شخصیتیں ہیں ۔ ہم بات کرتے ہیں Matt Gaetzکی جنھیں ٹرمپ نے امریکی اٹارنی جنرل نامزد کیا ہے وہ ایک متنازعہ قانون ساز رہے ہیں اور جاریہ ہفتہ تک بھی جنسی بدکاری کے ضمن میں تحقیقات کا حصہ بنے رہے ۔ اُنھیں اٹارنی جنرل جیسے باوقار عہدہ کیلئے نامزد کئے جانے کے ساتھ ہی امریکی سیاسی حلقوں خود ریپبلکن پارٹی میں بھی ہلچل مچ گئی ہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ ایک ایسا شخص جو جنسی بدکاری کے کیس میں تحقیقات کا سامنا کررہا ہے اسے ملک کا سب سے بڑا پراسکیوٹر اور محکمہ انصاف کا سربراہ کیسے مقرر کیا جاسکتا ہے ؟
دوسری طرف ٹرمپ کے ایک اور فیصلہ پر تنقیدیں کی جارہی ہیں ۔ انھوں نے رابرٹ ایف کینیڈی جونیر کو وزیرصحت نامزد کردیا ۔ واضح رہے کہ کینیڈی جونیر خود صدارتی دوڑ میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں دستبردار ہوگئے ۔ واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ سال یعنی 20 جنوری 2025 ء میں دوسری مرتبہ عہدہ صدارت کا حلف لیں گے ۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوٹالڈ ٹرمپ کی کابینہ کیلئے نامزدگیوں کو لیکر خود اُن کے حامیوں میں پریشانی پائی جاتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ایلون مسک گورنمنٹ ایفیشینسی ( وزارت برائے موثر حکمرانی ) کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے ۔ تاہم ان کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ آیا سینیٹ ان کے ناموں کو قبول کرے گی بھی یا نہیں ؟ آیا سینیٹ ان کے ناموں کو منظوری دے گی بھی یا نہیں ؟ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ ٹرمپ نے رابرٹ ایف کینیڈی جونیر کو امریکہ کے وزیر صحت ( سکریٹری آف ہیلتھ اینڈ ہیومین سرویس ) نامزد کیا ہے ۔ ایلون مسک ( وزارت ؍ محکمہ برائے موثر حکمرانی ) کی قیادت کریں گے ۔ ان کے ساتھ ٹرمپ کے اتحادی وویک راما سوامی کو بھی نامزد کیا گیا ہے ۔ ایلون مسک ٹیسلا ، اپس ایکس اور اسٹارلنک کے بانی اور چیف ایکزیکٹیو ہیں ۔ یہ ایسی کمپنیاں ہیں جنھوں نے امریکی حکومت کے ساتھ بڑے بڑے معاہدات کئے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ’’مفادات کے ٹکراؤ ‘‘ جیسے چیلنج کا مقابلہ کریں گے ۔ آپ کو بتاتے ہیں کہ Pete Hegsethکو وزیر دفاع نامزد کیا گیا ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ چونکا دینے والا انتخاب ہے ۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ Pete Hegseth پیٹے ہیگستھ فاکس نیوز کے سابق اینکر ہیں ، اُنھیں ٹرمپ کے بڑے اور کٹر حامیوں میں شمار کیا جاتا ہے، وہ امریکی فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں ، تاہم امریکی میڈیا اُنھیں اس عہدہ کیلئے بہتر انتخاب نہیں سمجھتا ۔ امریکی میڈیاکا ماننا ہے کہ امریکی فوج دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے ( یہ اور بات ہے کہ طالبان نے اُس کے غرور و تکبر کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ) اور اُس کی قیادت کیلئے جو تجربہ درکار ہے وہ Pete Hegsethکے قریب سے بھی ہوکر نہیں گذرا ۔
ٹرمپ نے امریکی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوئم کو داخلی سلامتی کی وزیر کے عہدہ کیلئے نامزد کیاہے خود امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ کرسٹی نوئم کے پاس انسداد دہشت گردی ، سائبر سکیورٹی ، کسٹمز اور سرحدوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کو محفوظ رکھنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ ہاں ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریف و ستائش کرتی آئی ہیں ۔ اب بات کرتے ہیں جان رٹیکلف کی وہ نیشنل انٹلیجنس کے سابق کارگذار ڈائرکٹر ہیں ، ٹرمپ نے اُنھیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی قیادت کیلئے نامزد کیا ہے ۔ ان پر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے انٹلیجنس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ہے ۔
یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے سابق صدارتی امیدوار ، ٹی وی میزبان اور آرکنساس کے گورنر مائیک بکابی کو اسرائیل میں نیا امریکی سفیر نامزد کیا ہے ۔ یہ وہ شخص ہے جو فلسطین کا سخت دشمن ہے ۔ اس نے میڈیا پر یہ کہکر اپنی فلسطین دشمنی کا ثبوت دیا تھا کہ اس اراضی پر فلسطین نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ یہ شخص فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تائید و حمایت کرتا ہے ۔ ٹرمپ نے اپنی ٹیم میں جن اہم اور متنازعہ شخصیتوں کو شامل کیا ہے ان میں ماگ والٹز بھی شامل ہیں جنھیں نیشنل سکیورٹی اڈوائیزر ( مشیر قومی سلامتی ) بنایا گیا ہے ۔ وہ کانگریس کے رکن ہیں اور ماضی میں اسپیشل فورس آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ انھوں نے ہمیشہ چین اور روس پر شدید تنقید کی ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی ٹیم کیلئے جن شخصیتوں کو نامزد کیا گیا ہے ان میں ہندوستانی نژاد تلسی گبارڈ بھی شامل ہیں۔ اُنھیں ڈائرکٹر نیشنل انٹلیجنس نامزد کیا گیاہے وہ ہوائی کی سابق کانگریس ویمن ہیں اور انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو خیرباد کہہ کر ٹرمپ کی تائید و حمایت کیلئے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ اب اُن کے تحت 18انٹلیجنس ایجنسیاں کام کریں گی یا رابطہ میں رہیں گی ۔
ہندوستان میں خاص طورپر مودی جی کے بھکتوں میں اس بات کو لیکر خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ وہ ہندو ہیں لیکن ان لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ ہندوستان سے ان کا راست تعلق نہیں ہے ۔ تلسی گبارڈ 2020 کی صدارتی امیدوار بھی رہی ، ان کا شمار ٹرمپ کے کٹر حامیوں میں ہوتا ہے ۔ 43 سالہ تلبسی کا امریکہ کی ریزرو آرمی سے بھی تعلق رہا ۔ وہ 2012ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی نشست پر کامیابی حاصل کرنے والی پہلی ہندو ہے۔ 1981 ء میں کیتھولک عیسائی مائیک گبارڈ اور کیرول کے گھر اُن کی پیدائش ہوئی ۔ تلسی گبارڈ کی ماں نے ہندوازم میں دلچسپی لی اور اپنے تمام بچوں کو ہندو نام دیئے جیسے بھکتی ، جئے ، آرین ، تلسی اور ورنداون وغیرہ ۔ یہ خاندان ہندو ازم اور عیسائیوں دونوں مذاہب کے تہوار مناتا ہے ۔ تلسی 27 سال کی عمر میں Hawai State Legislatur کیلئے منتخب ہوسکی ۔ امریکی آرمی ریزرو میں اُن کا درجہ لیفٹننٹ کرنل کا تھا ۔ تلسی جن کے بارے میں بھکتوں میں بہت زیادہ خوشی پائی جارہی ہے اُنھوں نے سینماٹوگرافر ابراہم ولیمس سے شادی کی ۔ دوسری جانب ٹرمپ نے مارکو روبیو کو سکریٹری آف اسٹیٹ نامزد کیا ۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی نئی ٹیم سے کس طرح کام لیتے ہیں ۔
جہاں گبارڈ کا تعلق ہے ان کے بارے میں کاروان میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ وہ خود کو کرما یوگی کہتی ہیں، وہ ٹرمپ کی سخت مخالف تھی اور کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی ایک نئی سرد جنگ کو جنم دے رہی ہے ۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ماضی میں تلسی گبارڈ کی انتخابی مہم میں امریکہ میں آر ایس ایس سے وابستہ عناصر نے ہی انہیں امریکہ میں آر ایس ایس کی شہزادی بھی کہا جاتا ہے ۔مودی کی دعوت پر 2014 میں گبارڈ ایک مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا ۔ بہرحال سنگھ پریوار کی مالی مدد نے امریکی سیاست میں گبارڈ کا مقام مستحکم بنایا ہے ۔ گبارڈ نے امریکہ میں مودی کی داغدر ساکھ کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔