تلنگانہ انتخابات میں بی جے پی کے4 سرکردہ لیڈرو ں کو حیران کن شکست

   

حیدرآباد3ڈسمبر(سیاست نیوز) بی جے پی کو تلنگانہ انتخابات 2023 میں اہم دھچکا لگا کیونکہ ریاست میں اس کے سب سے نمایاں قائدین ۔ ایٹالا راجندر، بنڈی سنجے، دھرما پوری اروند، اور رگھونندن راؤ کو حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ایٹالہ راجندر ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں جنہوں نے حضور آباد اور گجویل سے انتخابات میں مقابلہ کیا دونوں حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایٹالہ راجندر جو پہلے بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس )سے وابستہ تھے نے بی جے پی سے وفاداری تبدیل کر لی تھی۔ اگرچہ اس نے حضور آباد کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن اس بار وہ بی آر ایس کے پاڈی کوشک ریڈی سے ہار گئے۔ گجویل میں سابق باس اور سبکدوش ہونے والے سی ایم کے چندر شیکھر راؤ کو چیلنج کرنے کی ان کی کوشش بھی ناکام رہی۔کریم نگر کے ایم پی اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری بنڈی سنجے نے کریم نگر سے الیکشن لڑا اور بی آر ایس لیڈر گنگولا کملاکر کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی مبصرین انتخابات سے قبل سنجے کو پارٹی کے ریاستی سربراہ کے عہدے سے ہٹائے جانے کو زعفرانی پارٹی کی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا ایک سبب سمجھتے ہیں۔ تاہم، بھگوا پارٹی کے کیڈر بنڈی سنجے نے کریم نگر کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاستی وزیر گنگولا کملاکر نے جو اس حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے ووٹوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے اپنے اختیار کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو پولنگ بوتھوں میں ای وی ایم کام نہیں کر رہے ہیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔بی جے پی کے ایک اور سرکردہ لیڈر اور نظام آباد کے ایم پی دھرم پوری اروندجو کورٹلہ سے انتخابی میدان میں تھے کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ بی آر ایس امیدوار کلواکنٹلہ سنجے سے ہار گئے۔ رگھونندن راؤجنہوں نے دوباک سے مقابلہ کیا کو بھی بی آر ایس لیڈر کوٹا پربھاکر ریڈی کے مقابلے میں 53,513 ووٹوں کے کافی فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں انہیں 97,879 ووٹ حاصل ہوئے۔تاہم کاماریڈی سے بی جے پی کے امیدوار کے وینکٹ رمنا ریڈی کی جیت بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھی کیونکہ اس نے حلقہ سے بی آر ایس اور کانگریس دونوں کے سربراہوں کے سی آر اور ریونت ریڈی کو شکست دی۔ان اہم مقابلہ جات کے غیر متوقع نتائج نے ریاست میں انتخابات کے بعد کے منظر نامے کو نئی شکل دی ہے، جس سے بی جے پی کے لیے تلنگانہ میں اپنی جگہ تلاش کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔