تلنگانہ میں لاک ڈاؤن پہ لاک ڈاؤن

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

مشکل حالات میں وقت تیزی سے نہیں گذرتا ، حکمرانوں کے پاس اپنا وقت گذارنے کے لیے وزارتی یا کابینی اجلاس منعقد کر کے عوام پر مزید دباؤ ڈالنے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کے مشغلے موجود ہوتے ہیں ۔ تب ہی تو چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کورونا وائرس کے بہانے ریاست تلنگانہ کے عوام کو لاک ڈاؤن پہ لاک ڈاؤن لگا دیا ہے ۔ مرکز سے دو قدم آگے چلتے ہوئے کے سی آر نے اب ریاست میں 29 مئی تک لاک ڈاؤن کردیا ۔ تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ، البتہ شراب کی تجارت کھول دی گئی ۔ شراب کے عادی ، امیر غریب سب شراب کی دکانوں پر امڈ پڑے سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کے اصولوں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں ۔ مقامی انگریزی اخبار نے ایک تصویر شائع کی جس میں شہر حیدرآباد کے پاش سمجھے جانے والے متمول افراد کے علاقہ جوبلی ہلز کی ایک شراب کی دکان پر صرف امیر خواتین کو شراب خریدنے کے لیے قطار میں کھڑا دکھایا گیا ۔ ایک ہی دن میں 1000 کروڑ روپئے کی شراب فروخت ہوگئی ۔ جن کے گھروں میں چولہے نہیں جل رہے ہیں ان کے لیے ان شرابیوں کی فضول خرچی انسانیت پر ماتم کرنے کی کہانی بیان کرتی ہے ۔ کورونا وائرس کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنے کا موقف رکھنے والے ریاستی وزیر بلدی و نظم و نسق کے ٹی راما راؤ نے عوام کو مشورہ دیا کہ کورونا وائرس جلد ختم ہونے والا نہیں ہے ۔

اس کی عادت ڈالنی چاہئے دیگر فلو اور امراض کی طرح کورونا بھی ایک مرض بن کر انسانی سماج میں گھوم رہا ہے ۔ جب حکمران طبقہ کے لوگ اس طرح اپنی رائے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں تو پھر عوام کو وائرس سے بچاؤ کی دوا ویکسن کی تیاری کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیوں کہ یہ ویکسن کب تیار ہوگی اس کا کچھ علم نہیں ہے ۔ جب تک ویکسن تیار ہوا اس وقت تک نہ جانے کتنے انسان زندگی کی بازی ہار چکے ہوں گے ۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کا حملہ چند ریاستوں میں شدید ہے ۔ ماباقی ریاستوں میں وائرس ابھی داخل نہیں ہوا ہے ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وائرس پر قابو پانے کی بات کرنے والوں نے عوام پر پے درپے لاک ڈاؤن کی سزا مسلط کرنا شروع کیا ہے ۔ علاقوں کو ریڈ زون ، آرینج زون اور گرین زون میں شامل کر کے تجارتی سرگرمیاں شروع کی گئیں ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب سارے ملک میں لاک ڈاؤن ختم کردیا جائے گا تو اس کے بعد کی صورتحال کیسی ہوگی اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کیا ہنگامی منصوبے بنائے ہیں اس کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ تلنگانہ میں کورونا وائرس سے اب تک زائد از 1800 افراد متاثر ہوئے ہیں ۔ ان میں کئی صحت یاب بھی ہوئے ہیں ۔ اس وائرس کے اثرات صرف چند اضلاع حیدرآباد ، رنگاریڈی ، وقار آباد ، میڑچل ، سوریہ پیٹ ، ورنگل رورل کوریڈ زون قرار دیا گیا ۔ ریاست تلنگانہ کے 33 اضلاع میں 22 اضلاع اسے ہیں جہاں گذشتہ 14 دن میں کورونا کا کوئی پازیٹیو کیس نہیں آیا ہے پھر بھی حکومت نے احتیاط کے بہانے رات کا کرفیو برقرار رکھا اور ان میں کاروبار کرنے کی مشروط اجازت دی ہے ۔ حیدرآباد کو ریڈ زون بناکر یہاں پر عوام کے ساتھ پولیس کی زیادتیوں کا لائسنس بھی دیا گیا ۔ شراب کا کاروبار کرنے والے مزے کرسکے ۔ جب حکومت منافع کے لیے کورونا وائرس کے خطرے کو بھی نظر انداز کرتی ہے لیکن عوام کی مذہبی آزادی کو سلب کرلیا جاتا ہے ۔ عبادت گاہیں بند کردی جاتی ہیں ۔ چیف منسٹر نے تو یہ کہتے ہوئے عوام سے معذرت خواہی کی کہ انہوں نے ریاست کے تمام مذہبی مقامات کو بند کردیا ہے ۔ خاص کر رمضان کے مہینہ میں مسلمانوں کی مساجد میں عبادت سے روکا جارہا ہے ۔

اس کے لیے وہ معذرت خواہ ہیں لیکن یہ کورونا وائرس کا خوف اور خطرہ صرف مسجد ، مندر کے لیے ہی کیوں ہے جب کہ ماباقی تجارتی سرگرمیاں جاری رہنے کے دوران سماجی دوری کا کوئی خاص خیال رکھا نہیں جارہا ہے ۔ شہریوں کے لیے ہر گذرتے دن حالات اس قدر خراب کردئیے جارہے ہیں کہ لوگوں کا صبر بھی جواب دے رہا ہے ۔ جن کے کارخانے ، شاپنگ مال ، ریسٹورنٹس ، دکانیں بند ہیں سب حکومت کے اقدامات پر ماتم کررہے ہیں ۔ حکومت نے رمضان تمام لاک ڈاؤن نافذ کر کے ایک طرح سے زیادتی کی ہے ۔ غربت اور بیروزگار کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو ذہنی دباؤ اور بھوک سے بچانے کے لیے کچھ اقدام تو کرنے ہی ہوں گے ۔ اب ساری ذمہ داری حکومتوں کی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے ۔ ہر طرف ایک عجیب سی گھٹن اور خوف کی فضا بنادی گئی ہے ۔ جن علاقوں میں فیکٹریاں کھولنے کی اجازت دی گئی وہاں کاروبار اور روزگار کی جگہ موت کا ننگا ناچ دیکھا گیا ہے ۔ آندھرا پردیش کے وشاکھا پٹنم میں ایک کمپنی سے گیاس کے اخراج نے کئی افراد کی جان لے لی ۔ سینکڑوں افراد متاثر اور مویشی فوت ہوگئے ۔ کورونا کے خوف سے ابھی باہر نہیں نکلے تھے کہ اس علاقہ میں زہریلی گیاس کے خوف نے انسانی دل و دماغ پر بری طرح اثر انداز کردیا ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش جگن موہن ریڈی نے مہلوکین کے ورثہ کو فی کس ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا ۔ یہ واقعہ ایک المیہ پر دوسرا المیہ کی طرح ہے ۔ انسانی زندگیوں کی قدریں ختم ہورہی ہیں ۔ حکومتوں کے پاس اصول ضابط اور شرائط کی طویل فہرست ہوتی ہے اس پر مطلب براری کے تحت عمل آوری ہونے لگے تو خرابیاں ہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اپوزیشن نے حکومتوں کے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کئے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ حکومت کے کسی بھی اقدام میں شفافیت نظر نہیں آئی ۔ سمجھ نہیں آتا کہ ریاست تلنگانہ میں جب کورونا کے کیس بہت ہی کم ہیں تو لاک ڈاؤن میں 29 مئی تک توسیع کی کیا وجہ ہے ۔

لگتا ہے سارے کام کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں ۔ ٹسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر خرچ ہونے والی رقومات کا درست اندازہ نہیں ہے ۔ کورونا کے اخراجات کا اگر آڈٹ کیا جائے تو حکومت کا اصلی چہرہ سامنے آئے گا ۔ ریاست اور ملک کے حالات ابتر بنا دئیے گئے ہیں جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کہ کیسے گذارا کررہے ہیں ۔ یہ امر واقع ہے کہ کورونا وائرس نے ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو عملاً ہلا کر رکھ دیا ہے جس کا پھیلاؤ روکنے اور اس کے تدارک کے لیے ابھی تک کوئی احتیاطی اقدام موثر طریقہ سے اٹھایا جارہا ہے اور نہ ہی کوئی فوری اثر والی دوا تیار کی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں متاثرہ ملکوں نے عالمی ادارہ صحت کی تجاویز پر ہی اکتفا کیا ہے اور احتیاطی اقدامات کرنے WHO کے مشورہ پر ہی مکمل شروع کردیا ۔ کورونا وائرس سے بچنے یا تدارک کا یہ محض وقتی اقدام تھا جس کے مضمرات معاشی اور کساد بازاری کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔ بہر حال حکومتوں کو آج عام آدمی کی معاشی اور سماجی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا اور قومی علاقائی سطح پر ایثار و یکجہتی کی مثالی فضا ہموار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ وائرس نے انسانوں کے اندر جس طرح کی اعتبار و بے اعتباری پیدا کی ہے اس کو ختم کرنے میں اب کتنا وقت لگے گا یہ حکومتوں کے فیصلوں پر منحصر ہے ۔