بی آر ایس اور کانگریس سے مشاورت کے ذریعہ مسلم ایجنڈہ طے کیا جائے، مجوزہ اسمبلی چنائو مطالبات کی تکمیل کا بہترین موقع
حیدرآباد: 29 مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ میں کرناٹک کی طرح مسلم ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اہم سیاسی پارٹیوں سے مسلمانوں کے حق میں وعدوں کی انتخابی منشور میں شمولیت کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دانشور طبقے نے اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوئے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے اشتراک سے اہم سیاسی پارٹیوں کو مسلم ایجنڈے کی اجرائی کی ترغیب دی جائے گی۔ کرناٹک میں مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے متحدہ موقف اختیار کرتے ہوئے کانگریس پارٹی قیادت سے بات چیت کی اور نہ صرف ٹکٹوں کی تقسیم بلکہ برسر اقتدار آنے پر مسلمانوں سے ترقی اور فلاح و بہبود کے اہم وعدے منشور میں شامل کرانے کی کامیاب مساعی کی تھی۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں مسلمانوں نے متحدہ طور پر کانگریس پارٹی کی تائید کی اور بھاری اکثریت سے کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا۔ کانگریس نے مسلم تحفظات کی بحالی، حجاب اور حلال پر پابندی ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کابینہ میں دو مسلم وزراء کو اہم قلمدانوں کے ساتھ شامل کیا گیا اور کرناٹک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان کو اسپیکر اسمبلی کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ مسلمانوں کے اتحاد نے کرناٹک میں فرقہ پرست طاقتوں کو زوال سے دوچار کیا ہے۔ تلنگانہ میں ڈسمبر میں اسمبلی انتخابات مقرر ہیں اور ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتدار کے دو اہم دعویداروں بی آر ایس اور کانگریس قیادتوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم ایجنڈے کو قطعیت دیں۔ مسلم ووٹ کی تقسیم سے بی جے پی کو امکانی فائدے کے پیش نظر تلنگانہ میں کرناٹک کے تجربے کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ علیحدہ تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے جہد کار محمد اے خلیل نے مسلمانوں کے دانشور طبقے کو کرناٹک ماڈل پر عمل کرنے کی صلاح دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرناٹک میں مسلمانوں کے فیصلے نے سیاسی پارٹیوں کو مسلم ووٹ کی طاقت سے واقف کرایا ہے۔ تلنگانہ میں گزشتہ 9 برسوں کے دوران کے سی آر حکومت نے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں مایوس کن مظاہرہ کیا۔ کئی اہم وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا جس میں 12 فیصد تحفظات اور قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کو مناسب نمائندگی شامل ہیں۔ اب جبکہ انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے لہٰذا محمد خلیل نے دانشور طبقے کو مشورہ دیا کہ وہ متحدہ موقف اختیار کرتے ہوئے بی آر ایس اور کانگریس کی قیادتوں سے بات چیت کریں۔ بی آر ایس نے گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں انتخابی منشور میں مسلمانوں سے متعلق جو وعدے کئے تھے ان کی تکمیل نہیں کی گئی۔ ریاستی کابینہ میں 3 مسلم وزراء کی شمولیت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن دو میعادوں میں صرف ایک نمائندگی پر اکتفا کیا گیا۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے حکومت نے وقف بورڈ کو جوڈیشیل پاورس کا وعدہ کیا تھا اس کے علاوہ وائس چانسلرس کے تقررات میں بھی مسلمانوں سے ناانصافی کی گئی۔ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن اور دیگر سرکاری اداروں میں مسلمانوں کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی آر ایس کے ضلعی صدور اور انچارجس کی فہرست میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگر مسلمان سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کریں تو اسمبلی کی کم از کم 10 نشستوں پر مسلم امیدواروں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ عام طور پر اہم سیاسی پارٹیاں ایک یا دو نشستوں پر مسلمانوں کو نمائندگی پر اکتفا کرتے ہیں۔ جہد کار محمد خلیل نے کرناٹک میں مسلم قیادت کی دوراندیشی اور حکمت عملی کی ستائش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے برسر اقتدار پارٹی کو پابند کرنے میں متحدہ موقف اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کی متحدہ قیادت کی کمی ہے۔ مسلم کمیونٹی کے دانشوروں، نوجوانوں اور تعلیم یافتہ بااثر افراد کو سرجوڑکر بیٹھنا ہوگا تاکہ بڑی سیاسی پارٹیوں کو کم از کم 10 اسمبلی نشستوں پر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے راضی کیا جائے۔ مسلمانوں کو پولیٹیکل امپاورمنٹ کے حصول کے لیے منشور میں مسلم ایجنڈے کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ مسلمان کب تک دعوت افطار اور رمضان گفٹس پر اکتفا کرتے رہیں گے؟ تلنگانہ کے دانشور اور اہل علم طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے دکھ درد اور ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے اہم سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کے ذریعہ اپنے مطالبات پیش کریں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کے لیے مجوزہ اسمبلی انتخابات ایک بہترین موقع ثابت ہوں گے۔ اگر ہم نے اس موقع کو گنوادیا تو پھر مستقبل میں محض اعلانات اور دعوت افطار کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ر