تمام ہندوستانی مسلمانوں کی نظریں ہرمشکل میں حیدرآباد کی طرف اٹھتی ہیں

,

   

بنگلور اور وجئے واڑہ میں احتجاج کرنے والی حیدرآباد کی قیادت اپنے شہر میں خاموش کیوں ، مشاعرہ سے قبل عمران پرتاپ گڑھی کا سوال

حیدرآباد۔24فبروری(سیاست نیوز) عالمی شہریت یافتہ شاعر عمران پرتاب گڑھی نے حیدرآباد کی عوام سے کہاکہ ہندوستان بھر کے مسلمان مشکل وقت میں حیدرآباد کی طرف اپنی نظر اٹھاتے ہیں اور یہاں سے جو ردعمل انہیں ملتا ہے وہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے لئے حوصلہ بن جاتا ہے مگر پچھلے دو سے ڈھائی مہینے میں ایک شاہین باغ حیدرآباد میں نہیں بن سکا‘ جبکہ مسلمانوں کی قیادتیں تو کہتی ہیں کہ حکومت کا کار کا اسٹیرنگ ان کے ہاتھ میںہے ‘ تو اسٹرینگ گھومتے کیوں نہیں ہیں‘ اور حیدرآباد کی طرف اٹھنے والی نگاہوں کو مطمئن کیوں نہیںکرتے ‘ اب وقت اسٹرینگ گھومنے کانہیںبلکہ کار کو بریک لگانے کا ہے۔ آج یہاں قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں رضاکارانہ تنظیم رضا ئے الہی کے زیر اہتمام منعقدہ احتجاجی مشاعرے اور جلسہ عام سے وہ خطاب کررہے تھے جس کی صدرات جناب ظہیر الدین علی خان نے کی ۔ ان کے علاوہ سابق ریاستی وزرا ء محمد علی شبیر‘ورکن پارلیمنٹ ریونت ریڈی ‘ سابق کارپوریٹر خواجہ بلال ‘ صدر رضائے الہی الحاج سید سلیم نے بھی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون‘ امکانی این آر سی و این پی آر کے خلاف مرکزی او رریاستی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اپنے خطاب کے آغاز پر عمران پرتاب گڑھی نے شاہین باغ کی ان کے خواتین کو خراج پیش کیاجو پچھلے ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ سے سی اے اے‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ عمران پرتاب گڑھی نے کہاکہ حیدرآباد ہندوستان کے مسلمانوں کا مرکز مانا جاتا ہے اور مگر اس مرتبہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی امیدیںپوری نہیںہوئی ہیں ۔انہوںنے کہاکہ اب بھی وقت ہے ’’حیدرآباد کے مسلمانوں اٹھو اور اپنی قیادتوں سے سوال کرو کہ حیدرآباد میںبھی ایک شاہین باغ کیوں نہیںبن سکتا ہے‘‘۔ عمران نے کہاکہ آپ کی قیادت ریاست کے باہر جاتی ہے ‘ وجئے واڑہ ‘ بنگلورو اور نہ جانے کہاں کہاں جاکر جلسہ کرتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ سڑکوں پر نکلیں اور احتجاج کریں مگر جب حیدرآباد کی بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بڑی آسانی سے سو کروڑ اور پندرہ کروڑ کے درمیان مقابلے کی بات شہہ نشین سے کرلی جاتی ہے مگر وہ قائدین اس بات کو فراموش کردیتے ہیںکہ اترپردیش کے پانچ سو گھر وںپر مشتمل گائوں کے بیچوں بیچ میںرہنے والے ایک مسلمان کے گھر کو ان کے اس مقابلے کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔عمران پرتاب گڑھی کے اپنے انقلابی اشعار کے دوران کہاکہ دہلی کے جس شاہین باغ نے ہندوستان کو حوصلہ دیا اس کی شروعات دراصل حیدرآباد سے ہونا چاہئے تھامگر ایسا نہیںہوا ہے ۔ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون‘ این آرسی او راین پی آر کے حوالے سے اپنے شعر کے ذریعہ کہاکہ اگر حکومت بالخصوص دہلی میںبیٹھے ہوئے دو تانا شاہ ہمیںشہری ماننے سے انکار کرتے ہیں تو ہم بھی انہیں حکومت ماننے سے کھلم کھلا انکار کرتے ہیں۔ عمران پرتاب گڑھی نے اپنے خطاب میں تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد کے دانشواروں سے اپنے استفسار میں کہاکہ سوال پوچھنا شروع کردیں ورنہ تیس سال بعد کی نسلیں ہم سے سوال پوچھیں گی جب دہلی جل رہا تھا اور دہلی کا تاناہ شاہ اس تاج محل میںچہل قدمی کررہاتھا جس کو ہمارے اباواجداد نے تعمیر کیاتھا اس وقت آپ خاموش کیوںتھے۔انہوںنے کہاکہ سابرمتی آشرم میں گاندھی کے سامنے وہ لوگ اپنی پیشانی جھکاتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیںجن کے دلوں میںگوڈ سے ہے۔ عمران نے ہمیں غیر قانونی طریقے سے ملک میںداخل ہونے والے کہاجارہا ہے مگر یہ گوڈسے کے ہمدرد بھول گئے ہیںکہ ان کی ہی پارٹی کے اڈوانی ہندوستان میںپیدا نہیںہوئے اور آزادی کے بعد وہ ہندوستان ائے تھے‘ گجرات کے چیف منسٹر وجئے روپانی نیپال کے بھوٹان میںپیدا ہوئے اور اگراس ملک سے باہر کرنا ہے تو ایسے لوگوں کو کرو ‘ ہمارے اباواجداد کی قربانیوں کی سرزمین ہند کی مٹی گواہ ہے‘ انڈیا گیٹ کے در ودیوار گواہ ہیںجس پر لاکھوں کی تعداد میںہمارے اجداد کے نام تحریر ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر ہماری شہریت اتنی ہی مشکوک ہے تو پھر امریکی صدر کو تاج محل دیکھانے کیوں لے کر گئے ‘ تا ج محل تو ہمارے اجداد کی ۔ ہندوستان میںموجودگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔عمران نے مضحکہ خیز انداز میں کہاکہ اگر دیکھنا تھا وہ ’’ شوچالیا‘‘ دیکھاتے جو حکومت نے بنایاہے۔عمران نے اپنے شعر ’وہ چاہتے ہیںکہ ہندوستان چھوڑ دیں ہم’ بھوت کے ڈر سے مکان چھوڑ دے ہیں‘سناتے ہوئے کہاکہ ہم کہیں نہیںجانے والے ہیںہمارے جینا او رمرنا ہندوستان کی اسی مٹھی میںہے اورہم گاندھی کا خواب ہیں۔عمران نے کہاکہ حیدرآباد میں احتجاج کی اجازت نہیں ملتی ‘ اگر اجازت مل بھی جاتی ہے تو سینکڑوں مقدمات منتظمین پر درج کردئے جاتے ہیں ‘ خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ اس کے باوجود بھی آج قلی قطب شاہ اسٹڈیم میںاسی مقام پر سی اے اے‘ این آرسی او راین پی آر کے خلاف احتجاج مشاعرہ او رجلسہ عام منعقد کیاجارہا ہے جہاں پر چند دن قبل کچھ فرقہ پرست ائے تھے اور نفرت پر مشتمل نعرے لگاکر چلے گئے۔ انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنی تقریروں میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں‘ پندرہ لاکھ بینکوں اکاونٹوں میںجمع کرانے سے شروع ہوئے کہانی پندرہ کروڑ مسلمانوں پر ختم کرتے ہیںمگر دہلی میںرہنے کے باوجود شاہین باغ میںاحتجاج کرنے والوں سے جاکر ملاقات کی انہیں توفیق نہیںہوتی ۔