ڈاکٹر محمد سراج الرحمن
جب امریکہ میں 47 ویں صدر کے انتخاب کے لیے چنائو مہم چل رہی تھی آزادی فلسطین کا مدہ بہت گرم اور اہم رہا۔ امن پسند امریکی عوام سابقہ صدر جوبائیڈن کی غلط پالیسیوں کی وجہ اپنی ناراضگی مخالف رائے دہی کے ذریعہ دی اور بتادیا جس میں خاص کر عرب رائے دہندوں کا خاص رول رہا ہے جنہیں موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین اور مشرقی وسطی میں امن قائم کرنے کی ضمانت دی تھی۔ تب ہی تو ان تمام اسٹیٹس جہاں عرب اور امن پسند رہتے ہیں ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیا لیکن جیسے بھی ٹرمپ کے موافق میں نتائج آئے تب ٹرمپ نے اپنا موقف بدل دیا اور باربار حماس کو اور فلسطین موافق ممالک کو یہ دھمکی، انتباہ دینے لگے کہ اگر حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو میرے حلف سے پہلے رہا نہ کرے گا تو وہاں قیامت برپا ہوگی۔ گلف ممالک بھی زد میں آئیں گے۔ ابھی ان کی یہ دھمکی (انتباہ) عام بھی نہیں ہوئی، قہر خداوندی، بھیانک آگ ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف برداری سے پہلے ایک ایسی جہنمی آگ سے امریکہ کا دوسرا بڑا متمول اسٹیٹ California کے لاس اینجلس کے 5 سے زیادہ خوبصورت شہروں کو جہاں، عالیشان ولاس ساحل سمندر تعمیر کئے تھے، راتوں رات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ ساری دنیا کی اعلیٰ ٹکنالوجی رکھنے والے سوپر پاور امریکہ اس آگ پر جو تقریباً 18 ہزار ایکڑ سے زیادہ محیط تھی قابو پانے سے نہ صرف عاجز رہا۔ اس کے اعلی عہدیداروں کا یہ بیان دینے پر مجبور کردیا بلکہ مایوسی اور بے بسی کے عالم میں کہنے لگے اس قہر خداوندی کا روکنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ حالانکہ ان کی مدد کے لیے پڑوسی ممالک میکسیکو، جاپان، کینڈا دیگر نے بھی مدد بھیجی، جدید ٹیکنالوجی سے لیس پانی گیاس، کیمیکل کا استعمال سوپر پاور کو کروڑوں ، اربوں ڈالر کے نقصان سے بچانہ سکا۔ تاریخ امریکہ میں متمول ریاست میں پہلی بار یہ آگ ان کے آشیانوں کو خاک آلود کیا۔ وہاں سے جان بچانے بھاگنے پر مجبور کیا۔ جن کی بولی ساری دنیا کے فلم کے پردوں پر بولی جاتی تھی ہالی ووڈ کے یہ معروف ستارے جن کو اپنے مال پر، جائیداد، عالیشان عمارتوں اور ایکٹنگ (Acting) پر گھمنڈ تھا، جو چکنا چور ہوگیا۔ یہ یہی ظالم تھے جنہوں نے جو فلسطین کی آزادی کی پرزور مخالفت کی تھی۔ غزہ کی نسل کشی (Genocide) کی ہمایت کی، صف ہستی سے مٹانے کی آواز اٹھائی، تب اللہ تعالیٰ نے معصوم فلسطینیوں کی آہ (یعنی ظالم کا ظلم خود اس کی بربادی ہے) ظلم کی آوازنے خاموشی سے ان تمام کو ہڑپ لیا حب جان، حب مال فلسطین سے دشمنی نے انہیں جیتی جاگتی لاشیں، تباہ اور ہاہاکار میں مبتلا کیا۔ کئی نے تو مال و جان کے نقصان کو دیکھ کر خودکشی کی کوشش کی، شہر بدر ہوگئے، پینے کے پانی کے لیے ترس رہے ہیں، لاکھوں لوگوں کو Evacuate کیا گیا۔ سینکڑوں زخمی ہوئے، لوٹ مار ہونے لگی، سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی۔ جب ڈونالڈ ٹرمپ نے دیکھا تو خود کو اپنا موقف بدل دیا۔ فلسطین کی موافقت کرتے ہوئے، فرعونی ذہنیت کا حامل اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو غزہ میں جنگی مجرم کی، جنگ بندی پر دبائو ڈالا اور قطر میں جنگ بندی معاہدہ پر امریکہ نے اسرائیل کو راضی کیا، اسرائیل کو مجبور ہونا پڑا اور تین مراحل میں جنگ بندی کا آغاز ہوا، اس طرح گھمنڈی اسرائیل کو حماس نے ناک سے فولاد کے چنے چبایا۔ اسرائیل پسپا ہوا۔ نتن یاہو کا غرور خاک آلود ہوا۔ 33 اسرائیلی یرغمالیوں کے عوض 2 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی رہائی کا معاہدہ، جنگ بندی، حدود سے واپس پیچھے ہٹنا، بازآبادکاری، نئے غزہ کی تعمیر، 5 ہزار خیمے تعمیر کرنا جیسے دندان شکن جوابی معاہدوں پر اسرائیلی مجبور ہوا۔ جس کا آغاز (3) اسرائیلی خواتین کی رہائی اور 90 فلسطینی مجاہدین کی رہائی سے ہوا۔ جذباتی مناظر دیکھے گئے۔ ایمان کی حرارت، حمیت، جذبہ ولولہ انگیز خیالات کا آغاز کیا۔ 7 سالہ معصوم بچیاں، دو بہنیں جنگ بندی کے بعد اپنا آشیانہ جو کھنڈر بوجہہ اسرائیلی درندگی ہوا تھا رونے لگیں کیوں کہ ان کے والد شہید ہوچکے تھے۔ ایک بہن روتی ہوئی اظہار غم کررہی تھی تو دوسری بہن جذباتی ہوتی مسکراتی اظہار کررہی تھی کہ شہید کا مقام جنت ہے، وہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ الفاظ سن کر صحافیہ جو ان سے بات کررہی تھی اشک بار ہوگئیں۔ یہی یہ فلسطینی مجاہدین کا جذبہ ولولہ قوت ایمانی ہے، 65 ہزار سے زیادہ شہادتیں ہوئیں۔ اکثریت، معصوم بچوں، عورتوں کی ہونے کے باوجود سوپر پاور کو گھٹنے ٹیکنا پڑا۔ سر نگوں ہونا پڑا۔علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھائوں میں تلواروں کی
جنگ بندی جو دیڑھ سال کی بربادی کے بعد ہوئی، کی خوشیاں سارے عالم امریکہ، اسکاٹ لینڈ، لندن میں بڑے جلوس کے ذریعہ دیکھی گئی جہاں فری، فری فلسطین، کے نعرے بلند ہوئے اور پکے عالیشان عمارتوں میں تاریخی مساجد میں نمازیں، جدید ہسپتال میں علاج پانے والے فلسطینی جنگ بندی کے بعد اپنے مقام پر پہنچے تو کھنڈر ہی کھنڈر دیکھنے کو ملے۔ اطلاعات بتاتی ہیں TOI کہتا ہے ملبہ جب ہٹایا جارہا تھا تو بیسوں لاشیں ملیں جن کو ہٹاکر عارضی خیمے بنائے گئے۔ جس میں سب سے پہلے اپنے گھروں سے زیادہ ان بکھرے، اجڑے 80 فیصد تباہ حال غزہ میں انہوںنے کویت کی ایک بندی اُم زینت کی امداد سے عارضی وسیع و عریض اللہ کا گھر، مسجد کھڑا کرکے نمازیں باجماعت بہ بانگ دہل شروع کیا۔ یہ ایمانی حرارت کی جیتی جاگتی زندہ مثال ہے۔ انہوں نے سارے عالم کے مسلمانوں کو بتادیا، ہر حال میں پہاڑوں جیسی مصیبتیں درپیش کیوں نہ ہوں، سمندروں جیسا صبر اور رضائے الٰہی مقصد حیات ہونا چاہئے تو پھر آفتاب جیسی روشن بے داغ زندگی نصیب ہوتی ہے۔ اب اسرائیل جنگ میں گھٹنے ٹیک چکا ہے،پیچھے ہٹتا جارہا ہے۔ نیتن یاہو کو خود اپنے ملک میں زبردست احتجاج کا سامنا ہے۔ اب وہ وہاں کے خود کے لوگوں کے کھولتے خون کو جو یہ کہہ رہے ہیں نعرے لگارے ہیں کہ اس شخص کی ہٹ دھرمی سے یرغمالی ہلاک ہوئے۔ معاشی کمزوری، ہیبت، خوف اور ہراسانی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ یمن کے سوپر سونک میزائل حملے تل ابیب کو دہلادیا۔ شرمناک شکست کا سامنا ہوا۔ وقتاً فوقتاً سائرن کی گونج زیر زمین بنکروں میں پناہ لینا، بار بار بھگدڑ، محض حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور انا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس عوامی مخالفت، وزراء کمانڈران فوج کے استعفے کا جواب تو نہ دے سکا عالمی عدالت کا جنگی مجرم نیتن یاہو اب مغربی کنارہ (West Bank) میں ایک نئی شرارت، نئی درندگی شروع کیا ہے جو ان شاء اللہ اس کے بھی خاتمہ کا باعث بنے گی۔ علامہ اقبال کے مطابق ؎
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو سرخروی سے نوازے، خاتم النبیﷺ کے مشن کو عام کرنے جدوجہد کی توفیق دے۔ مدد فرمائے۔