جاگ گیا پھر حیوان انسان میں ہونے لگے بلت کار اس جہاں میں

   

سید جلیل ازہر
یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ دنیا بدترین ہوتی جارہی ہے ، برے لوگوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے کیونکہ آج سارا ملک عصمت ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو لے کر کافی پریشان ہے ، ملک کے ہر حصہ میں کہیں نہ کہیں کمسن لڑکیوں کو بھی درندہ صفت لوگ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے قتل بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ پرینکا ریڈی کی عصمت ریزی کے بعد درندوں نے اس کو جلا ڈالا ، اس واقعہ کے ساری ریاست ہی نہیں ملک میں جو اثرات پڑے ہیں، آج ہر کوئی اس پس منظر میں قوانین کے جذبات اور احساسات کو احتجاج کی شکل میں دیکھ رہا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خواتین اور لڑکیوں میں خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ دانشوروں کی ذہنیت کا اندازہ اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے کہ
صبح اُٹھتے ہی اخبار کی طلب لگتی تھی مگر
معصوم لڑ کیوں کے درد نے یہ شوق بھی چھین لیا
جس بے رحمی سے ڈاکٹر پرینکا ریڈی کو اجتماعی عصمت ریزی کے بعد جلادیا گیا ، ان درندہ صفت حیوانوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کی ماں ہو یا بہن ہو وہ بھی ایک عورت ہے ، ایسے درندوں کی سزا اس قدر عبرتناک ہو کہ آنے والے دنوں میں ان درندوں کی سزا کے خوف سے ایسی ذہنیت رکھنے والوں کی روح کانپ اٹھے ۔ اب احتجاج یا موم بتیوں کو جلاکر حکمرانوں کو احساس دلانے کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ عبرتناک انجام سے ہی ایسے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ آج حالات یہاں تک آ پہونچے۔
سیاہی سوکھ نہیں پاتی اخبار کی
ایک اور خبر آجاتی ہے بلت کار کی
آج پرینکا ریڈی کا معاملہ خواتین کے ذہنوں میں ایک نئے خوف کو پیدا کردیا ہے کہ پرینکا اپنی بہن کو فون کرنے کے باوجود اس کو بروقت قانونی مدد نہیں مل پائی ۔ اگر قانون کے محافظ بروقت حرکت میں آجاتے تو ایک زندگی کو بچایا جاسکتا تھا جبکہ شہر اور مقام واردات کا فاصلہ تین کیلو میٹر بتایا جاتا ہے جس پر ہر طرف سے سوال ا ٹھا ئے جارہے ہیں۔
لاکھ کوشش کر کے بھی کچھ نہ کرسکے ہم
گھر بھی جلتا رہا اور سمندر بھی قریب تھا
ایک دور تھا اجنبی خواتین بے خوف و خطر لڑکوں پر موٹر سیکل سوار سے لفٹ مانگا کرتی تھیں اور باقاعدہ گاڑی پر سوار ہوکر وہ اپنے مقام پر باحفاظت پہونچتی تھیں لیکن ملک میں عصمت ریزی کے درندوں نے عام لوگوں کے کردار کو بھی داغدار کردیا ۔ آج کوئی مرد کسی خاتون کے قریب سے گزرتا ہے تو وہ خائف ہورہی ہیں ، درندہ صفت حیوانوں نے سماج میں اسی صورتحال پیدا کر کے رکھ دی کیوں حکومت کو ۔
فضاء میں اُڑ رہے زہریلے جگنو کیوں نہیں دکھتے
کسی بھی حادثہ کے سارے پہلو کیوں نہیں دکھتے
عصمت ریزی کے واقعات اس قدر تیزی سے پھیل رہے ہیں، کیوں کمسن لڑکیوں کی عزت کو تار تار کرتے ہوئے قتل جیسے سنگین جرائم پنپ رہے ہیں ۔ اس کی باریک بینی سے تحقیقات اور ایسے واقعات میں ملوث درندوں کو لب سڑک سزائے موت دینے کی ضرورت آگئی ہے کیونکہ اخبارات اب عصمت ریزی کے واقعہ کے بغیر نامکمل ہوگئے ہیں ۔ انسان تو انسان بے زبان جانور بھی ایسے واقعات کو دیکھ کر روپڑتے ہوں گے۔
بدن سے روح جاتی ہے تو بجھتی ہے صف ماتم
مگر کردار مرجائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا ؟
عصمت ریزی کے کسی بھی واقعہ کے بعد محکمہ پولیس پوری مستعدی سے ملزموں کو گرفتار تو کرلیتی ہے مگر ان کی گرفتاری اس مسئلہ کا سدباب بنیں۔ ڈکیتی کی واردات میں ملوث ٹولی کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے مسروقہ مال برآمد کرلینا بڑی بات نہیں لیکن کسی کی عصمت لٹ جانے کے بعد خاطیوں کو گرفتار کر کے ان کی عصمت کو واپس نہیں لایا جاسکتا ۔ اس بات سے انکارنہیں کہ پرینکا ریڈی کے واقعہ کے بعد ساری ریاست میں پولیس انتہائی چوکسی اختیار کرتے ہوئے اسکولس اور کالجس میں لڑکیوں کو پولیس کے فون 100 کے استعمال کرتے ہوئے قتل اور وقت حالات کو قابو میں کرنے متحرک ہوگئی ہے لیکن چار قاتلوں کی سزا کا انتظار سماج بڑی بے چینی سے کر رہا ہے کہ حکومت کیا نئی قانون سازی ان واقعات کے روک تھام کیلئے کرے گی ۔ یوٹیوب پرجب پرینکا ریڈی کی غم زدہ ماں ا پنے گھر کے گیٹ کو بند کرتے ہوئے کسی عہدیدار کو اندر نہ آنے کی وارننگ اور چار قاتلوں کو یہاں لانے کی بات کر رہی تو راقم الحروف کے ذہن میں سکندراعظم کا ایک واقعہ اٹھکیلیاں لے رہا تھا جس سے بہت بڑا سبق ملتا ، وہ واقعہ یوں ہے۔ ایک روز فاتح دنیا اپنے وزیر کے ہمراہ ایک علم والے درویش سے ملاقات کو پہونچتا ہے ۔ جاکر اس کے سامنے کھڑا رہ گیا ، سکندر کا خیال تھا کہ درویش ان کی تعظیم کو اٹھے گا مگر درویش نے پرواہ نہیں کی ۔ یہ حالت دیکھ کر وزیر نے کہا جناب سکندراعظم فاتح دنیا آپ سے ملاقات کیلئے آئے ہیں۔ درویش نے سر اونچا کیا اور مسکراکر کہا جس سکندر کو دنیا کی ہوس جا بجا بگھائے پھرتی ہے کیا وہ بادشاہ ہے۔ وہ دنیا کا غلام ہے ، اس کے دلی جذبات اس کے اختیار میں نہیں ہیں۔ اس کے دل کو الٹ کر دیکھو اس میں غلامی کے زبردست نشانات ملیں گے ۔ بادشاہ میں ہوں جو اپنے دل کو اختیار میں رکھتا ہوں۔ سکندرآعظم اس گفتگو سے حیران ہوا۔ وزیر نے کہا کہ سکندر نے آپ کے لئے مال و اسباب لایا ہے اس کو قبول کیجئے ۔ درویش نے کہا مجھے اس کے مال کی ضرورت نہیں، لے جاؤ آخر کار سکندر نے عاجزانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا مجھ سے کچھ تو خدمت لے لیجئے تو درویش نے کہا کہ تم جو میری دھوپ روکے کھڑے ہو، راستہ سے ہٹ جائیں تو یہی خدمت میرے لئے کافی ہے ۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ جس پر کوئی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے تو اس کے زخم کوئی نہیں بھرسکتا ۔ پرینکا ریڈی کی ماں پر جو پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ، اس منظر کو دیکھتے ہوئے کئی لوگوں کی آنکھیں پرنم ہوگئی تھیں۔ یاد رکھو دل سے بڑی کوئی قبر نہیں ہوتی ، وہاں پر ہر روز ایک نیا احساس دفن ہوتا ہے۔
یہاں بکتا ہے سب کچھ ذرا سنبھل کر رہنا
لوگ ہواؤں کو بھی بیچ دیتے ہیں غباروں میں ڈال کر
عصمت ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات بالخصوص گزشتہ ہفتہ پرینکا ریڈی کے واقعہ نے ساری ریاست میں ایک عجیب و غریب ماحول پیدا کردیا تھا جبکہ 6 ڈسمبر کی اولین ساعتوں میں پرینکا ریڈی کے قاتلوں کے انکاؤنٹر سے عوام میں ایک حوصلہ پیدا ہوا اور ریاستی پولیس پر لگے ہوئے سوال کا خاتمہ ہوگیا ۔ درندہ صفت چار قاتلوں نے پرینکا ریڈی کی عزت پر ہاتھ ڈال کر بچ تو گئے لیکن خاکی کپڑوں پر ہاتھ ڈال کر موت کو گلے لگایا۔ اس انجام سے عوام کا ہر طبقہ مطمئن ہے کہ عصمت ریزی کرنے والوں کی موت جب تک دردناک نہیں ہوگی تب تک ایسے حالات پر قابو پانا مشکل ہوگا ۔ آج صبح اٹھتے ہی سماج کے ہر طبقہ سے ریاستی پولیس کو مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ سورج غروب ہونے تک بھی ریاستی عوام پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہی تھی اور آج سورج طلوع ہوتے ہی تنقید تعریف میں تبدیل ہوگئی ۔ اب یہی کہا جائے گا کہ ؎
اس خاک کو ہدایت دے مولا
اس خاک میں ملنے سے پہلے