جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کی ہیں

,

   

7 لوک سبھا چناؤ … مودی بمقابلہ مسلمان
7 مسلم تحفظات پر دوہرا معیار … آندھراپردیش میں زبان بند

رشیدالدین
گالی گلوج اور برا بھلا کہنا دراصل کمزوری کی علامت ہے۔ کسی بھی مقابلہ میں فریق ثانی کو جب شکست کا یقین ہوجائے تو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بے قابو ہوجاتا ہے ۔ انتخابی جنگ میں جیت اور ہار فطری عمل ہے اور پارٹیوں اور قائدین کو شکست کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ نے کئی ایسے سورما دیکھے ہیں جن کو شکست کا تصور بھی نہیں تھا لیکن عوام کے فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی نے بھی اپنی حکومتوں کا زوال دیکھا ہے ۔ جمہوریت پر ایقان رکھنے والا ہر شخص جانتا اور مانتا ہے کہ عوام اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر کوئی عوام کے فیصلہ کو بدلنے کی کوشش کرے تو جمہوریت ہی نہیں بلکہ آمریت ہوگی۔ 10 سال تک اقتدار نے نریندر مودی کو کرسی کا لالچی بنادیا ہے اور وہ تیسری مرتبہ اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اقتدار کے حصول اور 400 سے زائد نشستوں کی اپیل کے پس پردہ دراصل ہندو راشٹر کی تشکیل ہے۔ آر ایس ایس کے قیام کے 100 سال 2025 میں مکمل ہوں گے اور سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ 100 سال کی تکمیل پر دستور میں ترمیم کے ذریعہ ہندوستان کو ’’ہندو راشٹر‘‘ قرار دیا جائے۔ نریندر مودی دستور میں ترمیم کے بارے میں لاکھ تردید کریں لیکن اقتدار کے حصول کے بعد وہی ہوگا جو سنگھ پریوار چاہے گا۔ اپوزیشن کو تحقیقاتی اداروں کے ذریعہ ہراساں کرنے پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ الیکشن سے عین قبل الیکشن کمیشن پر مکمل کنٹرول کرلیا گیا۔ نریندر مودی اور بی جے پی کو عوام پر نہیں بلکہ الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ ہے۔ رائے دہندے جو حقیقی معنوں میں بادشاہ گر ہیں ، وہ تبدیلی کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ خاموش لہر رائے دہی کے آئندہ مراحل میں کیا رنگ دکھائے گی ، اس پر مبصرین کی نظریں ہیں ۔ رہی بات مودی۔ امیت شاہ کے بے قابو ہونے کی تو ابتدائی دو مراحل کے رجحان اس کی اہم وجہ دکھائی دے رہے ہیں۔ دو مراحل میں تقریباً 200 لوک سبھا حلقوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ووٹنگ مشینوں میں محفوظ ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے بعد بی جے پی حلقوں میں مایوسی پھیلنے لگی اور گودی میڈیا اینکرس نے عوام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تاکہ چاٹوکاری کا حق ادا ہوسکے ۔ اگر پہلے مرحلہ کا رجحان بی جے پی کے حق میں ہوتا تو نیوز روم میں جشن کا ماحول ہوتا۔ دوسرے مرحلہ کی رائے دہی جیسے ہی مکمل ہوئی نریندر مودی کی آنکھوں میں شکست دکھائی دینے لگی۔ مودی۔امیت شاہ جوڑی نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے الیکشن کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ انتخابی مہم کا آغاز بی جے پی نے مودی گیارنٹی سے کیا تھا ۔ گیارنٹی کے نام پر عوام سے کئی وعدے کئے گئے لیکن گزشتہ 10 برسوں میں وعدوں کی تکمیل سے متعلق کوئی رپورٹ کارڈ پیش نہیں کیا گیا ۔ ابتدائی دو مراحل کے رجحانات سے اندازہ ہوا کہ عوام مودی کی جملہ بازی سے عاجز آچکے ہیں۔ اپوزیشن قائدین کے خلاف مقدمات اور جیلوں میں بند کرنے کا منفی اثر ہوا ہے ۔ عوام نے جب مودی گیارنٹی کو مسترد کردیا تو بی جے پی نے آر ایس ایس کو میدان میں اتاردیا تاکہ انتخابی مہم زعفرانی بن جائے۔ مہم کے ہر گزرتے دن مودی ۔امیت شاہ کے تیور تبدیل ہونے لگے۔ انتخابی مہم کو ہندو، مسلم ، دہشت گردی اور پاکستان جیسے متنازعہ موضوعات کے ذریعہ ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو نام لے کر نشانہ بنایا گیا اور زائد بچے پیدا کرنے والے اور درانداز جیسے القابات سے نوازا گیا۔ وزیراعظم کے عہدہ کے وقار کو مجروح کرتے ہوئے نریندر مودی نے انتخابی فائدہ کو پیش نظر رکھا۔ الیکشن کو مودی بمقابلہ مسلمان بنادیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں نفرت کی مہم دراصل بوکھلاہٹ اور شکست کے خوف کا نتیجہ ہے ۔ مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے اثاثہ جات کے لٹیروں کے طور پر پیش کرتے ہوئے ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش ہے۔ تیسرے مرحلہ کی رائے دہی قریب آنے تک تحفظات اصل انتخابی موضوع بن چکا ہے۔ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی تحفظات پر نریندر مودی اور مہیش بھاگوت کو وضاحت کرنی پڑی۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کو حاصل 4 فیصد تحفظات کے خلاف ملک بھر میں مہم چلاتے ہوئے مودی نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک میں زندہ رہوں گا ، مسلم تحفظات کی اجازت نہیں دوں گا۔ مسلم تحفظات کے مسئلہ پر بی جے پی کا دوہرا معیار آندھراپردیش میں بے نقاب ہوگیا۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش دونوں ریاستوں میں 4 فیصد مسلم تحفظات پر عمل آوری جاری ہے لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ صرف تلنگانہ میں مسلم تحفظات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آندھراپردیش میں تلگو دیشم اور جنا سینا سے اتحاد کے سبب بی جے پی مسلم تحفظات کی مخالفت سے گریز کر رہی ہے ۔ بی جے پی سے اتحاد کے باوجود چندرا بابو نائیڈو نے مسلم تحفظات کی برقراری کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ مسلمانوں کے لئے کئی وعدے انتخابی منشور میں شامل کئے ۔ انتخابی منشور بظاہر تینوں پارٹیوں کی جانب سے جاری کیا گیا لیکن منشور پر نریندر مودی کی تصویر شامل نہیں کی گئی ۔ آندھراپردیش میں بی جے پی کی سیاسی مجبوری نے تحفظات کی مخالفت سے روک دیا ہے۔ انتخابی منشور میں مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں پر بی جے پی کی زبان بند ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ چندرا بابو نائیڈو اور پون کلیان نے نریندر مودی اور بی جے پی کو سیکولر بنادیا ہے۔ دراصل بی جے پی موقعہ پرستانہ سیاست پر کاربند ہے۔ آندھراپردیش میں قدم جمانے کیلئے مضبوط سہارے کی تلاش تھی جو تلگو دیشم اور جنا سینا کی شکل میں مل چکا ہے ۔ آندھراپردیش میں تلگو دیشم کو بی جے پی کی ضرورت نہیں بلکہ بی جے پی کو تلگو دیشم کی مدد اور سہارا چاہئے ۔
انتخابی مہم میں مودی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے جس انداز میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جارہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ملک کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں شامل نہیں ؟ کیا ہندوستان کو نیوکلیئر صلاحیت کے حامل میزائیل کی طاقت سے لیس کرنے والے اے پی جے عبدالکلام مسلمان نہیں ؟ کیا مولانا ابوالکلام آزاد ، محمد علی جوہر اور دیگر مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟ ملک کی آزادی کی جدوجہد سے لے کر ترقی تک مسلمانوں کی حصہ داری کسی سے کم نہیں ہے لیکن افسوس نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو مسلمان آج بھی درانداز دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کے اثاثہ جات پر مسلمانوں کی حصہ داری کے بارے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جو کچھ کہا تھا ، اس میں آخر غلط کیا ہے ؟ ہندوستان کے چپہ چپہ میں آج بھی مسلمانوں کی عظمت کی نشانیاں موجود ہیں۔ مودی بھول رہے ہیں کہ گزشتہ 10 برسوں سے انہوں نے مسلمانوں کی یادگار لال قلعہ پر قومی پرچم لہراتے ہوئے قوم سے خطاب کیا ہے۔ ہندوستان کو دنیا بھر سے سیاح ایلورہ اور اجنتا کی مورتیاں دیکھنے نہیں آتے بلکہ تاج محل ، قطب مینار ، چارمینار اور مسلمانوں کی دیگر یادگاروں کے مشاہدہ کیلئے آتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب ہندوستان کا ہر شعبہ میں نام روشن کیا ، پھر بھی انہیں حصہ دار تسلیم نہ کرنا انتہائی آخری درجہ کی فرقہ پرستی ہے۔ ہندو اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے لیکن اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ نریندر مودی کی تقاریر انتخابی ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن الیکشن کمیشن میں ہمت نہیں کہ نریندر مودی کو نوٹس دے۔ مودی کی تقریر کے خلاف سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں عوام کی جانب سے الیکشن کمیشن کو شکایت کی گئی لیکن کمیشن کے تین ارکان گاندھی جی کے تین بندروں کی طرح کچھ بھی سننے ، دیکھنے اور بولنے سے قاصر ہیں۔ اپوزیشن قائدین کے خلاف کمیشن کارروائی کر رہا ہے لیکن نریندر مودی کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔ انتخابی مہم میں نریندر مودی نے منگل سوتر کا حوالہ دیا اور ہندو خواتین سے کہا کہ کانگریس برسر اقتدار آنے پر منگل سوتر بھی چھین لے گی ۔ در حقیقت نریندر مودی کو منگل سوتر کا ذکر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ منگل سوتر کی اہمیت سے مودی اگر واقف ہوتے تو ان کی شریک حیات ساتھ ہوتیں۔ منگل سوتر باندھا اور سات جنم تک ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی لیکن آج ان کی قانونی اہلیہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جن کے دور چیف منسٹری میں گجرات میں ہزاروں خواتین کا منگل سوتر چھین کر انہیں بیوہ بنادیا گیا تھا۔ ہزاروں بچے یتیم ہوگئے تھے۔ منگل سوتر چھیننے کا تجربہ تو دوسروں کے مقابلہ نریندر مودی اور امیت شاہ کو زیادہ ہے۔ نریندر مودی کی شرانگیز تقاریر پر ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کی ہیں
یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے