جلگاؤں میں نماز کے دوران مسجد کے باہر موسیقی سے تنازعہ

,

   

اورنگ آبادکے کیراڈپورہ میں بھی فرقہ وارانہ تشدد اور سنگباری کے واقعات
جلگاؤں: مہاراشٹرا کے جلگاؤں میں نماز کے دوران مسجد کے باہر تیز آواز میں گانا بجانا کرنے پر دو فرقوں میں تنازعہ ہو گیا۔ دونوں فرقے آپس میں متصادم ہو گئے، جس کے سبب متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ 28 مارچ کو پیش آیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، اس سلسلہ میں کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے تقریباً 45 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حالات اب پْرامن ہیں۔ اسی دوران مہاراشٹر اکے اونگ آباد (چھترپتی سمبھا جی نگر) کے کیراڈپورہ علاقہ سے بھی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شرپسندوں نے کچھ نجی اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا اور اس کے بعد امن قائم ہو گیا۔ اورنگ آباد کے پولیس کمشنر نکھل گپتا نے کہا کہ شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اس معاملے پر رکن اسمبلی امتیاز جلیل کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’منشیات کے عادی افراد نے دہشت پیدا کی ہے، جبکہ پولیس جائے وقوعہ پر تاخیر سے پہنچی۔ کوئی اعلیٰ افسر نہیں تھا۔ اس کی تفصیل سے تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ انہوں لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘‘ان واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق ایک درگاہ کے سامنے اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی جبکہ مسجد پر چڑھ کر جھنڈے لہرائے گئے ۔
دہلی کے جہانگیر پوری میں پابندی کے
باوجود رام نومی کا جلوس نکالا گیا
نئی دہلی : دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں دہلی پولیس کی جانب سے رام نومی کا جلوس نکلانے کی اجازت نہیں دیئے جانے کے باوجود ہندو برادری نے جمعرات کو جلوس نکالا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔گزشتہ سال اس علاقہ میں رام نومی کے جلوس کے دوران تشدد برپا ہو گیا تھا، لہذا پولیس نے اس مرتبہ حفاظت کے سخت انتظامات کیے ۔ قبل ازیں، دہلی پولیس نے پیر کے روز ’شری رام بھگوان مورتی جلوس‘ نکالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اسی کے ساتھ اس علاقے کے ایک پارک میں رمضان کے دوران نماز ادا کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ سال 16 اپریل کو جہانگیر پوری کے علاقے میں ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد میں کم از کم آٹھ پولیس اہلکار اور ایک شہری زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازان انتظامیہ نے انہدامی کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں سے وابستہ کئی عمارتوں کو مسمار کر دیا تھا۔
مقامی لوگوں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ پولیس یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے اور تشدد کو بھڑکانے والے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں۔