ہند ۔ پاک کشیدگی … سرحد سے آبادی تک
کرنل صوفیہ قریشی … قوم کا سر فخر سے اونچا
رشیدالدین
پہلگام میں پاکستان کی جانب سے لگائی گئی چنگاری بھڑک کر جنگ کے شعلوں میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی کارروائی کیا ہند ۔ پاک افواج میں راست ٹکراؤ کا سبب بن جائے گی؟ سرحدوں تک محدود کشیدگی شہروں اور آبادیوں تک پھیل جائے گی، اِس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا لیکن صورتحال اِس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان ٹکراؤ طویل جنگ کی شکل اختیار کرنے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کی سرپرستی کے مسئلہ پر یوں تو دونوں ممالک میں کشیدگی کئی دہوں سے جاری ہے۔ اِس کے علاوہ سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور باہمی فائرنگ کے تبادلہ کے واقعات بھی معمول بن چکے تھے۔ پلوامہ، یوری اور پٹھان کورٹ دہشت گرد کارروائیوں کے بعد بھی سرحدوں پر کشیدگی دیکھی گئی لیکن صورتحال جنگ کے دہانے تک نہیں پہونچی تھی۔ دنیا کو یقین ہوچلا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں کشیدگی کا کوئی حل نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور برسر اقتدار پارٹیوں کی سیاسی مجبوری ہے۔ کشیدگی کے نام پر دونوں ممالک میں سیاسی فائدہ اُٹھانے کا رجحان بھی عام آدمی کی سمجھ میں آنے لگا تھا۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ درمیان میں کارگل کی لڑائی ضرور ہوئی لیکن وہ محض ایک علاقہ تک محدود رہی۔ پہلگام دہشت گرد حملہ کے بعد ہندوستان کے صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا اور دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی کارروائی نے جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ میزائیلس، ڈرون اور گولہ باری سرحد اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے نکل کر آبادیوں کا رُخ کرچکی ہے۔ دونوں ممالک نے جس انداز میں ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ شروع کردیا ہے یہ ایک بڑی جنگ اور تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ فوجی تنصیبات، ہوائی اڈوں، بندرگاہ اور دفاعی ادارے کسی بھی جنگ میں عام طور پر نشانہ ہوتے ہیں لیکن اب آبادیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ موجودہ حالات دونوں ممالک کے لئے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیں گے اور جنگ کو وسیع کرنے کا فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کے لئے ذمہ دار کون ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہر ذی شعور شخص کا یہی جواب ہوگا کہ پاکستان نے چنگاری کو ہوا دی ہے۔ ساری دنیا بھی جانتی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے مخالف ہندوستان سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ دہشت گردی کی فیاکٹریاں پاکستان میں موجود ہیں جہاں سے ہندوستان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ پاکستان نے بارہا دہشت گرد سرگرمیوں اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی تردید کی ہے لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مخالف ہندوستان تمام دہشت گرد اور ہندوستان کو مطلوب عناصر پاکستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سرحد پار دہشت گردی میں پاکستان کے رول سے شاید پاکستانی عوام بھی انکار نہ کرسکیں۔ پہلگام میں 26 ہندوستانی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل تھا۔ ہندوستانی افواج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا اور آبادیوں پر بم نہیں گرائے تھے۔ ہندوستان کی اِس کارروائی پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے پاکستان نے جموں و کشمیر، پنجاب اور راجستھان میں لائن آف کنٹرول سے متصل علاقوں پر حملہ کردیا۔ گولہ باری میں مکانات تباہ ہوئے اور کئی شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ پاکستان کی یہ حماقت مہنگی ثابت ہوئی اور برسوں سے دھمکیوں کا سامنا کرنے والے ہندوستان نے ایک ہی وقت میں حساب برابر کرنے کا تہیہ کرتے ہوئے اپنی طاقت اور صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ہندوستان نے سرحد کے آگے لاہور تک بھی راکٹ اور میزائیل بھیج کر بتادیا کہ سارا پاکستان، ہندوستانی راڈار کے دائرہ میں ہے اور کسی بھی شہر کو کبھی بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کے اندرونی علاقوں تک میزائیل بھیج کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو بتادیا کہ اُسے چھیڑنے کا انجام کیا ہوگا۔ جنگ کا سرحدوں سے نکل کر شہروں اور آبادیوں کا رُخ کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ، چین اور سعودی عرب کو فوری مداخلت کرتے ہوئے مزید تباہی اور انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنا ہوگا۔ افسوس کہ دونوں پڑوسیوں کی جنگ پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دونوں نیوکلیر طاقت ہیں اور کسی ایک کا غلط قدم ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ کو دہرانے کے لئے کافی رہے گا جہاں ایٹمی بم کے مضر اثرات آج تک بھی برقرار ہیں۔ کشیدگی کے اِس ماحول میں گودی میڈیا کے نیوز روم عملاً ’’وار رومس‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں جبکہ اینکرس افواج کے کرنل اور کمانڈر کے رول میں دکھائی دے رہے ہیں۔ نیوز رومس کشیدگی کے اِس ماحول کو کم کرنے کے بجائے آگ کو بھڑکانے کا کام کررہے ہیں۔ اینکرس بے لگام ہوچکے ہیں اور جھوٹ کی عمارتیں ہر بلیٹن میں کھڑی کی جارہی ہیں۔ گودی میڈیا میں خبر اور پروپگنڈہ کا فرق ختم ہوچکا ہے۔ دونوں ممالک کی کشیدگی کو نفرت اور ہندو مسلم کی سیاست میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کشمیر کے پونچھ اور راجوری میں پاکستان کی گولہ باری میں کئی شہری ہلاک ہوئے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ مقامی مسجد کے امام قاری محمد اقبال بھی گولہ باری میں شہید ہوئے لیکن بعض گودی میڈیا ہاؤس نے قاری محمد اقبال کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حد تو یہ ہوگئی کہ نفرتی اینکرس نے اُنھیں لشکر طیبہ کا کمانڈر اور پلوامہ حملہ میں شامل شخص قرار دے دیا۔ نفرت کے یہ سوداگر میڈیا کے نام پر بدنما داغ ہیں جنھوں نے سماج کا سر شرم سے جھکادیا ہے۔ کوئی مسلمان مذہبی لباس اور حلیہ میں دکھائی دے تو اُس پر دہشت گردی کا لیبر لگادیا جاتا ہے اور حکومت بھی خاموش ہے کیونکہ یہ اینکرس دراصل حکومت اور ہندوتوا دونوں کے ایجنڈہ کی تکمیل کررہے ہیں۔
پہلگام دہشت گرد حملہ کے سازشیوں کو سبق سکھانے کا کارنامہ کرنل صوفیہ قریشی نے انجام دیا اور حب الوطنی کا مظاہرہ جارحانہ فرقہ پرستوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ جس طرح بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرنل صوفیہ قریشی نے پاکستان کے اندرونی علاقے میں دہشت گرد ٹھکانوں کو تہس نہس کیا اُسی طرح یہ میزائیلس ہندوتوا کے اُن نفرتی ٹولے کی مہم پر بھی پڑے جو گزشتہ 10 برسوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ گجرات کی اِس بہادر بیٹی نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو جب بھی خطرہ لاحق ہوا، مسلمانوں نے سر سے کفن باندھ کر دشمنوں کے دانت کھٹے کئے۔ حوالدار عبدالحمید نے پاکستانی ٹینکوں کو اُڑایا تھا اور کرنل صوفیہ قریشی نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے تیار کردہ میزائیلس سے دشمن کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ ملک کے لئے مسلمانوں کی خدمات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندوستان کو عصری میزائیل سے لیس کرنے کا کارنامہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا ہے اور اِسی وراثت کو جاری رکھتے ہوئے ایک مسلم خاتون کرنل نے میزائیلس کو دشمنوں کے ٹھکانوں تک پہنچایا۔ گجرات کا ذکر آتے ہی بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ جس گجرات کی بہادر لڑکی کرنل صوفیہ قریشی نے دنیا بھر میں ملک و قوم کا سر فخر سے اونچا کردیا۔ اُسی گجرات میں بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری آج بھی انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ بلقیس بانو کی عصمت سے کھلواڑ کرنے والوں کو جیل سے رہائی کے بعد نفرتی ٹولے نے گلپوشی کرتے ہوئے ستائش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ جس قوم سے گجرات میں 2002 ء میں بھیانک فسادات کے ذریعہ ناانصافی کی گئی اُسی قوم کی بہادر بیٹی نے دہشت گردوں کو نشانہ بناکر یہ ثابت کردیا کہ مسلمان دوسروں سے حب الوطنی میں پیچھے نہیں ہیں بلکہ جب وقت آتا ہے تو مسلمان سرحدوں کی حفاظت کے لئے مہم کی قیادت کرتے ہیں۔ کرنل صوفیہ قریشی کے اِس کارنامہ کے بعد ہندوتوا عناصر قوم کو کیا صورت دکھا پائیں گے؟ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرنے والے دیکھ لیں کہ جب ایک مسلم خاتون بہادری کا اِس قدر مظاہرہ کرسکتی ہے تو اِس قوم کے جوانوں کی بہادری کا کیا عالم ہوگا۔ کارگل میں پاکستان درانداز افواج کو شکست دینے میں مسلم سپاہیوں کے رول کو ملک کبھی فراموش نہیں کرپائے گا۔ دہشت گردی اور پاکستانی جاریت کے خلاف ہندوستان کی کارروائی میں تمام 140 کروڑ عوام متحد ہیں اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر تمام پارٹیوں نے مرکزی حکومت کے ہر فیصلہ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ پہلگام دہشت گردی واقعہ نے دونوں ممالک کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ دونوں ممالک کو مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں اگر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال میں مصروف ہوجاتے ہیں تو تباہی میں اضافہ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ افسوس تو اِس بات پر ہے کہ عالمی طاقتوں نے اِس تنازعہ میں مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ اگر جنگ کی آگ پھیلتی ہے تو نہ صرف اطراف کے ممالک بلکہ ذیلی براعظم کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام دہشت گرد حملہ کے بعد سے آج تک قوم سے خطاب نہیں کیا اور نہ ہی کل جماعتی اجلاس میں اپوزیشن کا سامنا کیا۔ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز شخصیت کے لئے زیب نہیں دیتا کہ جنگ جیسی صورتحال کے وقوع پذیر ہونے کے باوجود وہ قوم کا سامنا نہ کریں۔ اُنھیں چاہئے کہ قوم کو حقائق سے واقف کراتے ہوئے اعتماد میں لینے کی کوشش کریں کیونکہ ملک کی سالمیت عوام کے اتحاد میں مضمر ہے۔ وزیر دفاع اور وزیرداخلہ دونوں بھی اجلاس تو کررہے ہیں لیکن تفصیلات پیش کرنے کے لئے عہدیداروں کو ذمہ داری دی گئی۔ عہدیداروں سے زیادہ عوام کو وزیراعظم کے پیام کا انتظار ہے۔ 1965 ء اور 1971 ء کے علاوہ کارگل لڑائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور امن مذاکرات ہوچکے ہیں۔ مبصرین کا احساس ہے کہ دونوں ممالک کو حملوں میں شدت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ عوام کی بھلائی اِسی میں ہے۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ دونوں ممالک کی قیادتیں نفرت کے بجائے انسانیت کے جذبہ سے کشیدگی کو کم کرنے کی پہل کریں گی۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے