جو لوٹتے ہو تو لوٹو مگر خیال رہے

   

مودی …باہر اعزاز ، گھر میں خون
امیت شاہ … بائیں بازو انتہا پسندی پر اجلاس
ہجومی تشدد پر کیوں نہیں ؟

رشید الدین

وزیراعظم نریندر مودی میں یقینا کچھ تو ایسی خوبی ضرور ہوگی کہ خلیج اور عرب ممالک کے سربراہان ان کے ان کے استقبال میں آنکھیں بچھا رہے ہیں۔ عرب ممالک کی فراخدلی کہیں یا پھر مودی کا جادو جس ملک کو وہ جاتے ہیں وہاں کا اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ مودی نے ایسا کونسا کارنامہ انجام دیا کہ مسلم ممالک میں انہیں اعزاز دینے کی دوڑ لگی ہے۔ نریندر مودی کو اندرون ملک اتنے اعزاز نہیں ملے، جتنا عرب ممالک نے انہیں اعزاز بخشا۔ مودی کو تعلیمی ڈگریوں سے کہیں زیادہ اعزاز مسلم ممالک نے عطا کئے ہیں۔ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ خوبی ضرور ہوگی تبھی تو ملک سے زیادہ بیرون ملک ان کے مداح اور قدردان ہیں۔ عوام کو حیرت اس بات پر ہے کہ گجرات فسادات کے بعد امریکہ نے جس شخص کو تقریباً 10 سال تک داخلے پر پابندی عائد کی تھی، اسی شخصیت کی مسلم اور عرب ممالک آؤ بھگت کررہے ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے گجرات کے ہزاروں مظلوموں کے خون ناحق کو بھلا دیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی فکر کیلئے تنظیم اسلامی کانفرنس موجود ہے لیکن اسے ہندوستان میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی کوئی فکر نہیں۔ مودی کو عرب ممالک کے اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز پر ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن عرب اور اسلامی دنیا کی حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی کو کیا ہوگیا۔ نریندر مودی ملک کے باہر بھلے ہی کوئی اعزاز حاصل کرلیں لیکن ہندوستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے مودی کو جو اعزاز بخشا تھا، وہ ملک کی تاریخ کے اَنمٹ نقوش کی طرح ہے اور بیرونی ممالک کے سیویلین اعزاز پر بھاری ہے۔ گجرات فسادات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارک کیا تھا کہ جس طرح روم جلتے وقت نیرو بانسری بجا رہا تھا، اسی طرح جب گجرات جل رہا تھا، حکمراں کا حال نیرو کی طرح تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مودی گجرات سے نکل کر دہلی کے تخت پر براجمان ہوگئے لیکن آج بھی سپریم کورٹ کا وہی پرانا اعزاز تازہ ہے۔ ملک میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے اور مودی کا حال روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح ہے۔ گجرات سے دہلی تک طویل عرصہ تو گذر گیا لیکن سپریم کورٹ کا کئی سال قبل دیا گیا اعزاز آج بھی گجرات کے مظلوموں کی یاد دلا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی دور اندیشی اور دور بینی کو سلام کہ جس نے شخصیت کا اندازہ بہت پہلے ہی کرلیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں نریندر مودی ایک ’’کامیاب مارکیٹنگ مینیجر‘‘ ثابت ہوئے۔ دنیا بھر میں انہوں نے ہندوستان کی جو تصویر پیش کی، اس سے ہر کوئی متاثر ہے۔ ملک کے اندرونی حالات بھلے ہی کچھ ہوں لیکن عرب اور اسلامی ممالک کو توفیق کہاں کہ حقائق جاننے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف غیرعرب اور مغربی ممالک نے مودی کو اس طرح کا کوئی اعزاز نہیں دیا کیونکہ ملک کے حالات اور مودی حکومت کے دعوؤں کی اصلیت سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ جس طرح انتخابات میں اپنی لفاظی اور زور خطابت سے مودی نے عوام کا دل جیت لیا، اسی طرح بلند بانگ دعوؤں کے ذریعہ بھولے بھالے عرب حکمرانوں کو قابو میں کرلیا ہے۔ مودی جب بھی کسی عرب ملک کے دورہ پر ہوتے ہیں تو سوشیل میڈیا پر ایک کارٹون گشت کرنے لگتا ہے۔ میزائل لانچر کا معائنہ کرتے ہوئے مودی پوچھتے ہیں کہ یہ لانچر کتنی دُور پھینکتی ہے، اس کے جواب میں عرب شخص کا جواب ہوتا ہے کہ ’’آپ سے بہت کم پھینکتی ہے‘‘۔ اکثر دیکھا گیا کہ مودی جب کبھی کسی خلیجی ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو وہاں مندر سے متعلق سرگرمیوں میں ضرور حصہ لیتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اوربحرین میں اس طرح کی سرگرمیاں ان کے دورہ میں شامل رہیں۔ مندر کی تعمیر کا آغاز، افتتاح یا پھر تزئین نو کے کاموں میں مودی شامل رہے۔ پہلی میعاد میں انہوں نے یوگا کو مسلم اور عرب ممالک تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی تھی، عرب اور مسلم ممالک نے ہمیشہ مذہبی رواداری اور فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ یکطرفہ رواداری آخر کب تک؟ ہندوستان کی جانب سے جوابی خیرسگالی کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ جس طرح مودی وہاں جاکر مندروں کا افتتاح کررہے ہیں، اسی طرح کسی عرب سربراہ مملکت کی آمد کے موقع پر ہندوستان میں کسی مسجد کا سنگ بنیاد رکھ کر جوابی رواداری کا مظاہرہ کیا جائے۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ نریندر مودی سنگھ پریوار کو راضی کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی اراضی پر دعویداری سے دستبرداری کرائیں اور کسی مسلم سربراہ مملکت کے ہاتھوں مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں۔ اس طرح دنیا بھر میں مذہبی رواداری کی مثال قائم کی جاسکتی ہے۔ مسجد کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا وعدہ کیا تھا، جو آج بھی سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کے ذرہ ذرہ سے رواداری کا ثبوت ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ حالیہ چند برسوں سے ملک کو نظر لگ گئی۔ دنیا بھر سے سیویلین اعزاز بھلے ہی نریندر مودی کو مل جائیں لیکن گجرات اور ہجومی تشدد کے بے گناہوں اور معصوموں کے خون کے دامن پر لگے دھبے کبھی دھل نہیں پائیں گے۔

ملک میں ماؤسٹ سرگرمیوں سے متاثرہ ریاستوں کے چیف منسٹرس کا اجلاس وزیر داخلہ امیت شاہ نے طلب کیا تھا۔ حالیہ عرصہ میں ہندوستان کی کسی بھی ریاست سے ماؤسٹ سرگرمیوں کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی بائیں بازو انتہا پسندی ترقیاتی سرگرمیوں میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ امن و ضبط کی بہتر صورتحال کے باوجود بائیں بازو انتہا پسندی کے نام پر امیت شاہ نے چیف منسٹرس کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کے فیصلوں اور نتائج سے قطع نظر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فی الوقت ماؤسٹ سرگرمی سے زیادہ خطرہ ہجومی دہشت گردوں سے ہے جو وقفہ وقفہ سے نہتے اور بے قصور مسلمانوں کو برسر عام نشانہ بنا رہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں جہاں امیت شاہ قیام کرتے ہیں، وہیں پر ہجومی دہشت گردوں نے گزشتہ دنوں ایک دینی مدرسہ کے استاد کو دن دھاڑے تشدد کا نشانہ بنایا اور جان لے لی۔ افسوسناک بات یہ تھی کہ سینکڑوں افراد تماش بین کی طرح موجود تھے، ان میں سے کئی تشدد کی ویڈیوگرافی کررہے تھے لیکن کسی نے انسانیت کی بنیاد پر بچانے کی کوشش نہیں کی۔ دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار نے عوام میں نفرت کا جو زہر بھر دیا ہے، اس کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص حملے کا شکار مسلمان کو بچانے تیار نہیں۔ اخلاق کے قاتل عدالت سے بری ہوگئے جس کے بعد ہندوستان کی قانون اور عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ مودی حکومت کی پہلی میعاد میں ہجومی تشدد کا سلسلہ جاری رہا لیکن دوسری میعاد میں واقعات میں تیزی آگئی۔ نریندر مودی کی حلف برداری کے دن ہی مسلمان کو ہجومی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امیت شاہ بائیں بازو کی انتہا پسندی کے بجائے ہجومی تشدد پر چیف منسٹرس کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے اور ریاستوں کو سخت اقدامات کی ہدایت دی جاتی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو سخت کارروائی کیلئے پابند کرنے کے باوجود آج تک مودی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی ہے۔ قانون کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رہا اور مودی حکومت نے گویا زعفرانی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا لائسنس دے دیا ہے۔

پہلی میعاد میں اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ملک میں ماؤسٹ سرگرمیاں عملاً ختم ہوچکی ہیں اور صرف چند ریاستوں میں باقیات موجود ہیں جس کا جلد صفایا ہوجائے گا۔ مرکز ، ریاستی حکومتوں کی جانب سے سطح غربت سے اُٹھانے کی کوششوں کا دیہی علاقوں میں مثبت اثر دیکھنے کو ملا ہے۔ مغربی بنگال اور تلنگانہ کے چیف منسٹرس نے امیت شاہ کے اجلاس کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ہجومی تشدد ہو یا پھر ملک میں معاشی بحران یہ ایسے مسائل ہیں جو ماؤسٹوں سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں ۔ دوسری طرف کشمیر میں تقریباً 30 دن سے عوام کی محروسی کا سلسلہ جاری ہے۔ وزارت داخلہ کے باوثوق حلقوں کے مطابق مزید دو ماہ تک عوام کو اسی طرح گھروں میں قید رہنا پڑے گا۔ کمیونیکیشن سسٹم کو فوری طور پر بحال کرنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دُور نہیں جب کشمیر سے اجتماعی نقل مقام یا پھر بھوک مری کے واقعات منظر عام پر آئیں گے۔ حکومت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کشمیر کے عوام 370 کی برخاستگی سے خوش ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر انہیں قید کیوں رکھا گیا۔ حتی کہ اپوزیشن قائدین کو دورہ کی اجازت نہیں دی گئی۔ ’’ایک ملک، ایک دستور‘‘ کا نعرہ جو آر ایس ایس کے نظریہ ساز شاما پرساد مکرجی نے لگایا تھا، وہ صرف کشمیر تک محدود کیوں ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں پر اس کا اطلاق کیوں نہیں۔ ناگالینڈ، گجرات، مہاراشٹرا، آسام، منی پور، سکم، میزورم، اروناچل پردیش اور گوا کو 371 کے تحت مختلف انداز کی رعایتیں حاصل ہیں ناگالینڈ اور میزورم میں مقامی قبائل کے مذہبی اور سماجی اُمور میں ہندوستان کا قانون مداخلت نہیں کرسکتا۔ جبکہ بعض ریاستوں میں کشمیر کی طرح بیرون ریاست افراد کو اراضی کی خریدی اور وسائل میں حصہ داری کی اجازت نہیں۔ کشمیر ایک طرف پابندیوں سے کمزور ہورہا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی نے نیشنل اسپورٹس ڈے کے موقع پر ’’فٹ انڈیا‘‘ مہم کا آغاز کیا جس میں انہوں نے صحت مند ہندوستان کا نعرہ لگایا۔ فٹ انڈیا محض جسم کے فٹ ہوجانے سے نہیں بنے گا بلکہ جب تک دل و دماغ کی صفائی نہ ہو، اس وقت تک ملک فٹ نہیں رہے گا۔ دل اور دماغ سے نفرت، تعصب اور جارحانہ فرقہ پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ہندوستان کو صحت مند ملک بنایا جاسکتا ہے۔ ورنہ یہ برائیاں ملک کو ’’اَن فٹ‘‘ اور کمزور کردیں گی۔ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا کر خوش ہونے والوں کیلئے ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ اس طرح کا پیام دیا ہے :
جو لوٹتے ہو تو لوٹو مگر خیال رہے
تمہارا گھر بھی مرے گھر کے بعد آئے گا