کشمیر … 370 کی بحالی تک انصاف نہیں
موہن بھاگوت … حقیقی چہرہ بے نقاب
رشیدالدین
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا وعدہ تو پورا ہوگیا لیکن ریاست کا درجہ کب بحال ہوگا؟ جموں و کشمیر کے عوام وزیراعظم نریندر مودی سے یہ سوال کر رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے وادی کا پہلا دورہ کیا اور ترقیاتی اسکیمات کا افتتاح انجام دیا۔ چیف منسٹر عمر عبداللہ نے نریندر مودی کو ریاست کے موقف کی بحالی کا وعدہ یاد دلایا اور واضح کیا کہ ریاست کا موقف ہر کشمیری عوام کے دل کی آواز ہے۔ نریندر مودی نے ایک چالاک سیاستداں کی طرح جواب دیا کہ اگر وعدہ کیا گیا تو ضرور پورا کیا جائے گا اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ہوگا۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد جموں و کشمیر سے ناانصافیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ بی جے پی نے مسلم اکثریتی واحد ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی میں زعفرانی پرچم لہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا لیکن اسمبلی انتخابات کے نتائج سے مایوسی ہوئی۔ لہذا ریاست کے موقف کی بحالی کا فیصلہ فوری طور پر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بی جے پی ایجنڈہ میں کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی کا مسئلہ ابتداء سے شامل تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیراعظم رہے لیکن انہوں نے دفعہ 370 کو نہیں چھیڑا۔ نریندر مودی نے نہ صرف بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے لئے حاصل کرلی بلکہ دفعہ 370 کی برخواستگی کے ذریعہ ایجنڈہ کے دو اہم امور کی تکمیل کردی اور اب یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں ہیں۔ نریندر مودی نے کشمیر کے بارے میں اٹل بہاری واجپائی کے انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے نعرہ پر عمل آوری کا اعلان کیا تھا۔ نریندر مودی نے کشمیر میں قیام امن کیلئے گولی کے بجائے میٹھی بولی کے استعمال کا وعدہ کیا تھا۔ وعدوں پر کس حد تک عمل کیا گیا ، اس سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ کشمیریت کے جذبہ کی کوئی قدر نہیں کی گئی اور کشمیریوں کے ساتھ رویہ انسانیت کا نہیں رہا ۔ رہی بات جمہوریت کی تو ریاست کے موقف کو ختم کرتے ہوئے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں کی تشکیل جمہوریت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے موقع پر کشمیری عوام نے ہندوستان کے ساتھ وابستہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کو مسترد کردیا تھا۔ ان کے اس جذبہ کا احترام کرتے ہوئے دستور میں دفعہ 370 کے تحت خصوصی مراعات دی گئیں۔ کشمیریوں کا خصوصی موقف بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کھٹک رہا تھا اور مرکز میں اقتدار ملتے ہی کشمیر کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ کشمیریت ، انسانیت اور جمہوریت تینوں میں کسی ایک کو بھی برقرار نہیں رکھا گیا۔ خصوصی موقف کی برخواستگی اور ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں کی تشکیل کے پانچ سال بعد ستمبر 2024 میں اسمبلی انتخابات کرائے گئے۔ دفعہ 370 کی بحالی کیلئے عوامی احتجاج کو کچل دیا گیا ۔ قائدین اور جہد کاروں کو برسوں جیلوں میں محروس رکھا گیا۔ دراصل بی جے پی کو یقین تھا کہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ختم کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرلے گی۔ مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کے علاوہ اسمبلی حلقہ جات کی نئی حد بندی کے ذریعہ مسلم آبادی والے حلقہ جات کو نشانہ بنایا گیا۔ مودی حکومت نے اقتدار کی امید میں اسمبلی انتخابات منعقد کئے اور اسے وعدہ کی تکمیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسمبلی چناؤ میں وادی کے رائے دہندوں نے بی جے پی کو سزا دی اور اسے صرف جموں تک محدود کردیا۔ وادیٔ کشمیر میں بی جے پی کو ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوسکی۔ 90 رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور سی پی ایم اتحاد کو 49 نشستوں کے ذریعہ اقتدار حاصل ہوا۔ کشمیر میں اقتدار کا خواب بکھرجانے کے بعد مودی حکومت سے باقی وعدوں کی تکمیل کی فوری طور پر توقع نہیں کی جاسکتی۔ ڈسمبر 2014 میں آخری اسمبلی چناؤ ہوئے تھے۔ پی ڈی پی سے اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی نے مخلوط حکومت قائم کی تھی لیکن جون 2018 میں محبوبہ مفتی حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے صدر راج نافذ کردیا گیا۔ 2019 میں دفعہ 370 کی برخواستگی اور دو مرکزی زیر انتظام علاقوں کے حق میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی۔ پانچ سال تک عوام کو اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل کے حق سے محروم رکھا گیا ۔ بی جے پی کو جب یقین ہوگیا کہ دفعہ 370 اور ریاست کے موقف کی بحالی کا مطالبہ کمزور پڑچکا ہے تو اس نے وعدہ کی تکمیل کے نام پر الیکشن کا اعلان کیا۔ مودی اور امیت شاہ کو یقین تھا کہ پہلی مرتبہ بی جے پی تنہا اپنی طاقت پر اقتدار حاصل کرے گی لیکن کشمیری عوام نے ثابت کردیا کہ کشمیریت کا جذبہ ابھی زندہ ہے۔
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو 78 سال بعد ملک کی آزادی دکھائی دی ہے۔ آر ایس ایس سربراہ کے حالیہ عرصہ میں بعض بیانات سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ موہن بھاگوت جارحانہ فرقہ پرستی کے خلاف ہیں۔ بھاگوت نے ماب لنچنگ کی مخالفت کی تھی اور گزشتہ دنوں ہندو تنظیموں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر مسجد کے نیچے مندر کی تلاش کا کام ترک کردیں۔ موہن بھاگوت کے بیانات کا سیکولر طاقتوں نے خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ موہن بھاگوت ملک میں جاری فرقہ وارانہ سیاست کی مہم کے خلاف حکومت کو پابند کریں گے ۔ ابتداء میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ آر ایس ایس کو نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ موہن بھاگوت کے بیانات سے متاثر ہوکر بھولے بھالے مسلم رہنماؤں نے آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات کی اور ملک کو فرقہ واریت سے نجات دلانے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ یہ سب کچھ چلتا رہا لیکن موہن بھاگوت کا حقیقی چہرہ گزشتہ دنوں اس وقت بے نقاب ہوا جب انہوں نے خود اپنے چہرہ کی نقاب الٹ دی۔ بھاگوت نے کہا کہ ملک کو آزادی 1947 میں حاصل نہیں ہوئی بلکہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد ملک حقیقی معنوں میں آزاد ہوا ہے۔ بھاگوت نے دستور ہند کو آزادی کی علامت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ موہن بھاگوت 15 اگست 1947 سے آج تک کیا غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے؟ اگر رام مندر کی تعمیر سے ملک کو حقیقی آزادی حاصل ہوئی تو پھر ہندوستان پر کیا انگریزوں کا راج برقرار تھا؟ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو کیا انگریزوں نے انہیں وزیراعظم بنایا تھا؟ موہن بھاگوت نے آزادی کے بارے میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے حقیقی نظریہ کی ترجمانی کی ہے۔ دراصل جدوجہد آزادی سے آر ایس ایس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مجاہدین آزادی میں سنگھ پریوار کا کوئی لیڈر شامل نہیں تھا برخلاف اس کے انگریزوں کی تائید اور مجاہدین آزادی کی مخبری کے واضح ثبوت منظر عام پر آئے ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز قائدین کے مکتوب منظر عام پر آئے جس میں انہوں نے جیل سے رہائی کیلئے انگریزوں سے معذرت خواہی کی تھی۔ رام مندر کی تعمیر کو ملک کی حقیقی آزادی سے جوڑتے ہوئے موہن بھاگوت نے ملک میں نفرت کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے وقت جبکہ نریندر مودی حکومت کی سرپرستی میں ملک میں فرقہ پرستی کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے، موہن بھاگوت نے جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ موہن بھاگوت کا یہ بیان کوئی سیکولر یا مسلم قائد دیتا تو اس کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کیا جاتا لیکن جدوجہد آزادی اور مجاہدین آزادی کی توہین کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی زبان بند ہے۔ ان دونوں کی خاموشی دراصل موہن بھاگوت کے بیان کی تائید کے مترادف ہے۔ اگر موہن بھاگوت کا بیان درست ہے تو پھر نریندر مودی کو یوم آزادی کے موقع پر 78 سال کی تقاریب کے بجائے رام مندر کی تعمیر سے آزادی کے برسوں کا تعین کرنا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا موہن بھاگوت کے بیان پر خاموش ہے۔ دراصل گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی نے میڈیا کو گودی میڈیا میں تبدیل کردیا ہے۔ کوئی مسلمان یا سیکولر قائد بیان دے دے تو ٹی وی چیانلس پر دن رات مذمت اور مباحث کے ذریعہ تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی بھی ٹی وی چیانل نے موہن بھاگوت کے بیان پر تبصرہ کی جسارت نہیں کی۔ ویسے بھی مجاہدین آزادی اور جدوجہد آزادی کے بارے میں آر ایس ایس کے نظریات پہلے ہی سے مختلف ہیں۔ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم لہرانے کی روایت نہیں ہے اور نہ ہی مجاہدین آزادی کو خراج پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موہن بھاگوت ملک میں بی جے پی کو مستحکم کرنے کیلئے نفرت کی ایک نئی مہم چھیڑنے کی تیاری میں ہیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی تنہا واضح اکثریت حاصل کرے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
جیسا دکھائی دینے کی کرتے ہو کوششیں
میں خوب جانتا ہوں کہ ویسے نہیں ہو تم