حامد انصاری نے کیا برا کہا؟

   

رام پنیانی
ہندوستان ایک ہمہ تہذیبی جمہوریت ہے، ایک ایسی جمہوریت جس کے دامن میں کئی ایک مذاہب کے ماننے والے، کئی زبانوں اور بولیوں کے بولنے والے اور کئی تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے پناہ لئے ہوئے ہیں اور جہاں تک متنوع تہذیب کا سوال ہے کثرت میں وحدت اور پرامن بقائے باہم کی بہت زیادہ اہمیت ہے جبکہ کثرت میں وحدت اور تنوع کا احترام ہمارے اقداروں میں سے اہم قدر ہے۔ جمہوریت میں اقلیتوں کے تحفظ کی گنجائش پائی جاتی ہے اور اقلیتوں کو تحفظ و سیفٹی کی ضمانت سردار پٹیل کی زیر صدارت اقلیتوں سے متعلق دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی نے دی ہے اور یہ حقوق 70 سال قبل دیئے گئے اور ان ہی خطوط پر ہم آج ٹھہرے ہیں جس میں مذہبی اقلیتوں کی سیکوریٹی اور معاشی بہبود کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق جتنے بھی تحقیقاتی کمیشن قائم کئے گئے ان کی رپورٹس میں واضح طور پر اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور پھر عیسائیوں کی فرقہ وارانہ فسادات میں تباہی و بربادی سے متعلق دردناک تصاویر پیش کی گئیں۔ اس سلسلہ میں ہم پالبراس، اصغر علی انجینئر اور حال ہی میں Yale یونیورسٹی کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں پیش کی گئی یا تیار کی گئی رپورٹس کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ ان رپورٹس میں فرقہ وارانہ تشدد کی انتہائی دردناک تصاویر پیش کی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ خاص طور پر مسلم اقلیتوں اور پھر عیسائی اقلیت بری طرح متاثر ہوئی۔ یہاں سچر کمیٹی رپورٹ (2006) کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس میں مسلم اقلیت کی انتہائی ابتر معاشی حالت کو اجاگر کیا گیا۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ مسلمان ہندوستان کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں یہاں تک کہ ایس ٹی ایس سی اور بدھسٹوں سے بھی معاشی طور پر بہت زیادہ پسماندہ ہیں۔ اگر پچھلے چند دہوں اور گزشتہ 6 برسوں کے دوران ہم حالات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم و جبر کرنے، انہیں حاشیہ پر لانے اور ان لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا کے بڑے جمہوری ملک اور جمہوری آزادی کے لئے شہرت رکھنے والے ہمارے ملک میں مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے نام پر ہجومی تشدد اور لو جہاد کے نام پر ہراسانی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے یہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ جب ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ پوری طرح حکمراں طبقہ کی تائید و حمایت کرتا ہے اور ’’کورونا بم‘‘ اور ’’کورونا جہاد‘‘ جیسی اصطلاحات گڑھنے لگتا ہے تو پھر اقلیتوں پر مظالم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد میڈیا کے ایک حصہ نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کورونا بم اور کورونا جہاد جیسی نئی اصطلاحات متعارف کروائیں۔ دوسری طرف زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے موجودہ مرکزی حکومت نے اس بنیاد پر آسام جیسی ریاست میں این آر سی کے عمل کا آغاز کیا کہ وہاں 50 لاکھ بنگلہ دیشیوں نے دراندازی کی لیکن جب قطعی گنتی کی گئی تو 19 لاکھ کے قریب لوگ شہری دستاویزات کے بغیر پائے گئے اور ان 19 لاکھ لوگوں میں 12.5 لاکھ ہندو ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے جس نیت اور مقصد کے ساتھ این آر سی کا عمل کروایا تھا وہ نیت ٹھیک نہیں تھی اور اس کا مقصد غلط تھا۔ آسام میں این آر سی کے عمل سے حاصل ہوئی پشیمانی پر شرمسار ہونے کی بجائے حکمراں جماعت نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی قانون منظور کروایا۔ جس کے ذریعہ پڑوسی ممالک میں ظلم و جبر اور بیجا قانونی کارروائیوں کا شکار تمام طبقات سوائے مسلمانوں کو شہریت کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون میں یہ گنجائش فراہم کی گئی ہے کہ پڑوسی ممالک بشمول افغانستان، پاکستان، مائنمار، سری لنکا کی غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے ہندوستان آتے ہیں تو انہیں ملک کی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔ حکومت کی اس چال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس دستاویزات نہیں اور وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر انہیں عقبی دروازے کے ذریعہ شہریت دے دی جائے گی جبکہ بنا کسی مناسب دستاویزات کے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرکے مراکز حراست میں بند کردیا جائے گا۔ اس طرح کے قانون سے بہ آسانی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریت دے رہی ہے اور مذہب کی بنیاد پر شہریت کھینچ رہی ہے۔ اسی کے پس منظر میں ہمارے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے
“By a Many Happy Accident: Recollections of a Life”
کے زیر عنوان کتاب میں اپنی یادداشتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کی اجرائی کے ضمن میں مختلف مباحث اور متعدد چیانلوں کی جانب سے لئے گئے انٹرویوز میں کھلے طور پر اقلیتوں کے ساتھ جانبدارانہ، تعصبانہ و معاندانہ رویہ اختیار کئے جانے کے موجودہ رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دینے کی کوشش کی کہ ہماری شہریت مذہبی بنیادوں پر نہیں ہے۔ ان کی کتاب پر اور ان کی زندگی پر زیادہ تر جو تبصرے کئے گئے ہیں وہ ان کے مسلمان ہونے کے اطراف گھومتے رہے۔ انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ان کی اپنی سفارتی اور سیاسی زندگی میں مسلمانیت کوئی اہم معاملہ نہیں رہا جبکہ جس معاملہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی وہ پیشہ وارانہ اہلیت تھی اور انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران جو چار دہوں پر مشتمل ہے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور بہت ہی باوقار انداز میں اپنے ملک کی خدمت بجا لائی۔ چونکہ وہ مسلمان ہیں اسی وجہ سے فرقہ پرست عناصر نے مسلسل انہیں نشانہ بنایا۔ 2015 میں یوم جمہوریہ کی پریڈ میں جبکہ جن گن من قومی ترانہ گایا گیا فوج نے سلامی دی۔ ایک تصویر حامد انصاری کے بارے میں جھوٹ پھیلانے اور پروپگنڈہ کرنے کے لئے گشت کروائی گئی اور یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ جس وقت قومی ترانہ گایا جارہا تھا اس میں صدر جمہوریہ، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع کے ہمراہ قومی پرچم کو سلیوٹ کررہے تھے۔ اس تصویر کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، وزیر دفاع وغیرہ کھڑے ہوکر سلامی دے رہے ہیں لیکن حامد انصاری سلیوٹ نہیں کررہے ہیں۔ دراصل یہ ایک پروپگنڈہ تھا اس قسم کے موقع پر صرف صدر جمہوریہ جو کہ فوج کے کمانڈر انچیف ہوتے ہیں وہی سلیوٹ دیتے ہیں۔ اُس وقت کسی اور کو سلیوٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ حامد انصاری نے جو کچھ بھی کیا وہ پروٹوکول کے مطابق کیا جبکہ صدر جمہوریہ کے ساتھ جن دوسروں نے سلیوٹ کیا ان لوگوں نے مقررہ رہنمایانہ خطوط کو نہیں اپنایا۔

جب حامد انصاری سبکدوش ہوئے اپنے وداعی خطاب میں وزیر اعظم نے بالواستہ طور پر تنقید کی ان کا کہنا تھا کہ آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ مغربی ایشیا میں گذارا جہاں ایک ہی ماحول اور مباحث کا آپ کو موقع ملا۔ دوسری طرف ان کی کتاب کی رسم اجرائی کے جواب میں فرقہ پرست طاقتوں نے دوبارہ یہ بکواس شروع کردی کہ ہندوستان نے آپ کو کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور آپ نے اس احسان کا مثبت صلہ نہیں دیا۔ آپ ہندوستان چھوڑکر کسی بھی ایسے ملک میں قیام کرسکتے ہیں جہاں آپ کو اپنے گھر کا احساس ہو۔ اس قسم کے تبصرے نسل پرست قوم پرستوں کی ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں جو شہریوں کو ان کی مذہبی شناخت سے دیکھتے ہیں۔ حامد انصاری اپنی شخصی ناراضگی کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ ایک جمہوریت پسند اور ہندوستانی قوم پرست ہونے کے باطے وہ ہمارے ملک میں گرتے ہوئے اخلاقی اقدار کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ شناخت کا مسئلہ رام مندر، ذبیحہ گاؤ، گھر واپسی اور لو جہاد جیسے جذباتی مسائل نے ہماری جمہوری بنیادوں کے صف اول کے محاذ پر اپنا مقام بنا لیا ہے ایسے میں حامد انصاری تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں کسی کو اعتراض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح حامد انصاری نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت میں لفظ ’’سیکولرازم‘‘ کہیں لاپتہ ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ حکومتوں کی ڈکشنری سے غائب ہو گیا۔ کوئی بھی اب یہ کہہ سکتا ہے کہ سیکولرازم پر عمل بھی ایک کمزور علامت کی نشاندہی کرتی ہے۔ آج کی پیچیدہ صورتحال میں سیکولرازم پر عمل آوری بہت مشکل امر بن گئی ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں اقلیتوں کے خلاف جھوٹے پروپگنڈہ میں شدت پیدا کردی ہے اور جب اقلیتی بہبود کے لئے کوئی اقدامات کئے جاتے ہیں تو اسے اقلیتوں کی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ حامد انصاری نے جو کچھ کہا ہے سچ ہی کہا ہے کیونکہ آج ہمارے ملک میں دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں میں عدم تحفظ کے احساسات بڑھتے جارہے ہیں اور قوم پرستی کی آزادانہ شکل عدم تحمل یا عدم برداشت کو فروغ دے رہی ہے۔ سیکولرازم کے مخالفین کے خیال میں ہندوستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حقیقی سیکولر ازم ہے، جبکہ ماضی میں سیکولر ازم کا توازن یا میلان اقلیتوں کی طرف ہوتا تھا۔ بہرحال حامد انصاری نے جو کچھ بھی اپنی کتاب میں کہا ہے جو نکات انہوں نے اٹھائے ہیں اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے اور ہمارے ملک کی جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہئے۔