رام پنیانی
حجاب پر پیدا شدہ تنازعہ انتہائی پریشان کن ہے۔ اس نے نہ صرف ریاست کرناٹک بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں ہلچل پیدا کردی ہے، حالانکہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جان بوجھ کر اسے مسئلہ بنایا جارہا ہے۔ کرناٹک کے علاقہ اُڈپی میں مسلم لڑکیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں حجاب کرنے پر کلاس رومس میں داخل ہونے نہیں دیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ تعلیمی اداروں کے دروازے یا باب الداخلہ باحجاب لڑکیوں کیلئے بند کئے جارہے ہیں۔ ہم نے اُن شرمناک مناظر کا مشاہدہ بھی کیا جہاں مذہب کے رکھشک زعفرانی ٹربن پہنے اور زعفرانی شالیں اپنے گلوں میں ڈالے تنہا طالبہ مسکان خان کا تعاقب کررہے تھے اور انتہائی جارحانہ انداز میں ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس قدر کثیر تعداد میں اس رکھشکوں کی جانب سے تعاقب کئے جانے اور نعروں سے ہیبت زدہ کئے جانے کے باوجود مسکان نے جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی اور اپنا اسائنمنٹ داخل کیا اور واپس ہوگئی۔ حجاب کے مسئلہ پر اڈپی کی مسلم طالبات ہائیکورٹ سے رجوع ہوئی ہیں جس نے اپنے عبوری حکم میں اسکولس میں زعفرانی شالس اور حجاب کے استعمال پر روک لگائی ہے۔ بہرحال اڈپی میں جو کچھ ہوا اور پھر ہائیکورٹ نے جو حکم نامہ جاری کیا، اس کے جواب میں حقوق نسواں کے کئی گروپس ہیومن رائٹس کے جہد کاروں نے پرزور انداز میں طالبات کے حجاب استعمال کرنے کی مدافعت کرتے ہوئے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی شرمناک حرکتوں کی مذمت کی۔ ان جہدکاروں نے اور مسلم طلبہ، سکیولر ذہن کے حامل لوگوں نے حجاب کی تائید میں احتجاجی مظاہرہ بھی کئے۔ ایک بات ضرور ہے کہ حجاب کو تنازعہ بناتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کیا گیا اور اس تنازعہ نے تخریبی طاقتوں کو ایک نئی توانائی فراہم کی ۔ حد تو یہ ہے کہ سوشیل میڈیا پر باحجاب لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تضحیک آمیز تبصروں کی بھرمار ہے۔ یہ تمام ایپی سوڈ میں ایک طرف وہ طاقتیں نظر آتی ہیں جو گاؤ رکھشک جیسے جارحانہ انداز میں اپنی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔ موجودہ واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف اور صرف مسلم کمیونٹی کو ڈرانے دھمکانے کیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ چند ہفتے قبل ہم اور آپ تمام نے دیکھا کہ کیسے مسلم خواتین کو بدنام کرنے کیلئے ’’سلی ڈیلس‘‘ اور ’’بلی بائی‘‘ جیسے ایپلیکیشنس منظر عام پر لائے گئے جس کے ذریعہ ایسی مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں بالخصوص سی اے اے، این آر سی کے خلاف آواز اٹھائی تھی، لیکن تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اہم دستوری عہدوں پر فائز قائدین نے خاموشی اختیار کی، کیونکہ ان کے خیال میں دھرم سنسد اور اس طرح کے ایپس عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جس سے ان کے عزائم کی تکمیل ہوتی ہے۔ اب حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ دھرم سنسدوں میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس کی تائید نہیں کرتے اور نہ ہی اس طرح کے خیالات کو منظور کرتے ہیں۔ موہن بھاگوت کا یہ بیان مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سواء کچھ نہیں۔ دوسری جانب آر ایس ایس کے ایک اور قائد اِندریش کمار جو راشٹریہ مسلم منچ کی رہنمائی کرتے ہیں، اس کے سرپرست اعلیٰ کا کردار ادا کرتے ہیں، منڈیا کی رہنے والی طالبہ مسکان خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں ’’جئے شری رام‘‘ کے نعروں کے جواب میں مسکان کی جانب سے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگانا پسند نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسکان نے علاقہ میں امن و امان میں خلل پیدا کرنے کیلئے جان بوجھ کر ایسا کیا۔
بہرحال ہم نے ایسا بھی ماحول دیکھا جہاں عام مقامات پر نماز کی ادائیگی کی مخالفت کی گئی، حالات اور ماحول اس قدر پراگندہ ہوگیا کہ عالمی سطح پر نسل کشی یا قتل عام کے بارے میں غیرمعمولی پیش قیاسی کرنے والے گریگوری اسٹینٹن نے یہاں تک انتباہ دے دیا کہ ہندوستان کے حالات انتہائی خطرناک ہیں اور جہاں تک قتل عام اور نسل کشی کے پیمانے میں ہندوستان کے درجہ کا سوال ہے، وہ 10 میں سے 8 ویں نمبر پر نظر آتا ہے اور خاص طور پر شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور این آر سی کے بعد اس طرح کے امکانات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس قانون کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے اور نتیجہ میں مسلمانوں میں عدم سلامتی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی فسادات میں مسلم نوجوانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کو طاقت کے زور پر کچلنا ایسے واقعات ہیں جو قابل مذمت ہیں۔ فی الوقت ایسے کئی نکات ہیں جن کے بارے میں ہمیں بہت ہی چوکس رہنا ہوگا۔ ہندو دائیں بازو اگر آگے بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف مسلم فرقہ واریت یا انتہا پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی طلباء تنظیم بہت زیادہ خبروں میں ہے۔ اس تنظیم پر الزام ہے کہ وہ پروفیسر جوزف پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ ہم بات کررہے تھے حجاب کی، یہ عناصر ایک بہانے کے تحت لڑکیوں کو اسکولس تک حجاب پہننے کی اجازت دے رہے ہیں اور پھر کلاس یا جماعت میں حجاب نکال دینے کا حکم دینا بہت ہی پریشان کن ہے۔ ایک طرف ’’حجاب ہمارا پیدائشی حق ہے‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے تو دوسری طرف یہ چیخ و پکار ہورہی ہے کہ ہندوستان میں شریعت کے مطابق حکمرانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی حجاب سے دشمنی صرف ہندوستان ہی میں نہیں کی جارہی ہے بلکہ حجاب کو لے کر عالمی سطح پر بھی کئی مباحث ہوچکے ہیں۔ فرانس نے عام مقامات پر حجاب پر پابندی عائد کی لیکن وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا اس وقت کے فرانسیسی صدر سرکوزی نے اس فیصلے کو برقرار رکھنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ جہاں تک تازہ صورتحال کا سوال ہے، کئی مسلم اکثریتی ممالک میں بھی عام مقامات پر پابندی عائد کردی ہے جیسے کوسوو میں 2008ء سے، آذربائجان میں 2010ء سے، تیونس میں 1981ء سے (وہاں 2011ء سے جزوی طور پر پابندی اٹھا دی گئی) اور ترکی میں پردے پر پابندی عائد کی گئی ( جہاں تک ترکی کا سوال ہے، رجب طیب ایردوان کی پارٹی کے برسراقتدار آنے سے پہلے تعلیمی اداروں میں بھی حجاب پر پابندی عائد کردی گئی تھی یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی کوئی رکن حجاب پہن کر نہیں آسکتی تھی، لیکن اب پارلیمنٹ ، تعلیمی اداروں اور عام مقامات پر حجاب پر کوئی پابندی نہیں ہے)
دوسری طرف سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے یہ اعلان کیا ہے کہ سر کو ڈھانکنے والا اسکارف یا سارے جسم کو چھپانے والا عبایہ مسلم خواتین کیلئے لازمی نہیں ہے۔ انڈونیشیا ، ملائیشیا ، برونی ، مالدیپ اور صومالیہ میں بھی حجاب لازمی نہیں ہے، لیکن ایران، افغانستان اور انڈونیشیا کے صوبہ Aceh میں حجاب قانون کے ذریعہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ہاں ہندوستان میں صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ آج ہندوستان میں جو صورتحال ہے ، اس سے مسلم لڑکیوں کی تعلیم پر اثر پڑے گا اور وہ تعلیمی شعبہ میں پیچھے ہوجائیں گی۔ حجاب کے مسئلہ پر دیکھا جائے تو مسلم لڑکیاں اور مسلم کمیونٹی ہی زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس بارے میں ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اس طرح کے رجحان کو روک سکتے ہیں؟