محمدنعیم وجاہت
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے اس ضمن میں قطری دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی وفد اور حماس قائدین کے مذاکرات ہوئے اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ، جنگ بندی میں اگر دیکھا جائے تو ثالثی کا اہم کردار رہا اور اس معاملہ میں قطر کی ستائش کی جانی چاہئے حالانکہ ثالثی کے بارے میں مصر اور امریکہ نے بھی اہم کردار ادا کرنے کے دعوے کئے ہیں جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ 7 اکٹوبر 2023 کو اس بدترین جنگ کے آغاز سے تاحال 47 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ، شہدا اور زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے ۔ اقوام متحدہ میں جب بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی گئی امریکہ نے اسے ویٹو کردیا ۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل نے حماس کے حملوں کو بہانہ بناکر غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کردیا خود اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے متعدد مرتبہ یہ کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اس نے غزہ کو قبرستان بنادیا ہے ۔ اسرائیل کی درندگی اور فلسطینیوں پر ظلم و جبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے غزہ پر ایک ہزار یا دو ہزار نہیں بلکہ 85 ہزار ٹن بم ( گولہ بارود ) برسائے اور بموں میزائیلوں کی بارش کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں 47 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے وہی مقدس مذہبی آثار مذہبی مقامات ، مساجد ، گرجا گھر ، اسکولس ، کالجس اور یونیورسٹیز زمین ڈوز ہوگے اس قدر تباہی و بربادی کے باوجود فلسطینیوں کی ہمت ان کی جرات اور سب سے بڑھ کر اپنے رب پر مضبوط ایمان کی ستائش کی جانی چاہئے انہیں سلام کیا جانا چاہئے کہ اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود ان لوگوں نے اپنے پاک پروردگار کا شکر ادا کیا صبر اور صلوۃ سے کام لیا اپنے چہروں پر مایوسی کی ایک معمولی لکیر بھی آنے نہیں دی اس طرح فلسطینیوں نے 15 ماہ کے دوران بارگاہ رب العزت میں ارض مقدس کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دنیا والوں کو یہ بتادیا کہ بیت المقدس کو اسرائیلی اور اس کی تائید و حمایت کرنے والوں کے شکنجہ سے بچانے اسے آزاد کروانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں اس نیک مقصد کیلئے ان کے پاس جان مال ال اولاد کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بہرحال ہم آپ کو بتارہے تھے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طئے پا گیا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے وزیراعظم نتن یاہو اس معاہدہ کا احترام کرنے سے گریز کررہے ہیں اور یہ سب جان بوجھ کر کیا جارہا ہے مثال کے طور پر جنگ بندی کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیل کا یہ فرض بنتا ہیکہ وہ غزہ پر فضائی حملے نہ کرے لیکن فلسطینیوں سے اپنی ازلی دشمنی کے باعث اسرائیل آخری لمحہ تک فلسطینیوں کی نسل کشی ان کی نسلی تطہیر جاری رکھا ہواہ ے چنانچہ الجزیزہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے اعلان 16 جنوری تک اسرائیل نے فضائی حملے کرتے ہوئے کم از کم 100 فلسطینیوں کا قتل کیا ۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں 101 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 27 بچے اور 33 خواتین شامل ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اس جنگ بندی پر اتوار سے عمل آوری ہوگی اور اس کیلئے یہ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی کابینہ کو اب ذمہ داری ہیکہ وہ جنگ بندی کو منظوری دے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نتن یاہو کابینہ میں شامل اسرائیلی انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دو وزراء نے دھمکی دی ہیکہ اگر کابینہ میں جنگ بندی معاہدہ کی توثیق کی جاتی ہے تو وہ کابینہ سے مستعفی ہوجائیں گے ۔( آخری اطلاعات ملنے تک اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی کی توثیق کردی ہے) فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہیکہ اسرائیلی حملوں میں اندازاً ہر روز 15 فلسطینی بچے زخمی ہوئے ۔ جنوری تک غزہ کی وزارت صحت یا محکمہ صحت کے جو اعداد و شمار منظر عام پر آئے ان کے مطابق 7 اکٹوبر 2023 سے جملہ 46788 فلسطینی شہید ہوئے اور 110453 زخمی ہوئے ۔ الجزیرہ نے اقوام متحدہ ماہرین کے ایک گروپ اور آزادانہ ماہرین کے حوالے سے شائع رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ان لوگوں نے تمام فریقین پر زور دیا ہیکہ وہ جنگ بندی معاہدہ کو قبول کریں ۔ ان ماہرین نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ جنگ بندی معاہدہ کے باوجود اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کررہا ہے ، اقوام متحدہ کے ماہرین کو امید ہیکہ جنگ بندی سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جارہی نسلی کشی اور قتل عام روکنے میں مدد ملے گی ان لوگوں کے خیال میں مطلوبہ مرد و خواتین کو آزاد کرتے ہوئے انہیں ان کے گھروں کو واپس بھیجنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جبکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کو بھی یقینی بنانا ہوگا اور اس معاملہ میں سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا تب ہی زندگیوں کے اتلاف کو روکا جاسکتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 7 اکٹوبر 2023 سے اسرائیلی بمباری میں 92 فیصد مکانات کو نقصان پہنچایا ، مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ، شمالی غزہ میں 70 فیصد مکانات تباہ ہوئے غزہ سٹی میں یہ تعداد 74 فیصد ہیں ۔ دیرالبلاء میں 50 فیصد مکانات زمین دوز کردیئے گئے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہیکہ اسرائیل کی درندگی کے نتیجہ میں 1.9 ملین فلسطینی ( غزہ میں ) بے گھر ہوگئے جبکہ 80 فیصد کمرشیل یا تجارتی سہولتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ، خان یونس میں 55 فیصد اور رفح میں 48 فیصد مکانات تباہ و برباد کردیئے گئے اور ایک بات اہم ہیکہ اس جنگ بندی سے اسرائیل کے دائیں بازو کے گروپس خوش نہیں ہیں۔ اسرائیل کے ایک اعلی سفارت کار کا کہنا ہیکہ اس جنگ بندی کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ Gideon Saar کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاہدہ کے بارے میں یوروپی یونین فارن پالیسی کے سربراہ KASA KALLAS کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔ X پر اپنے پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ، دوسری طرف حماس کے جانبازوں کا کہنا ہیکہ 15 ماہ کی جنگ میں اسرائیل اور امریکہ کو اپنے مقاصد میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ فلسطینیوں نے یہ جنگ جیتی ہے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ۔