حکومت کی مالیاتی ساکھ کمزور

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کے سی آر حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے میں بظاہر کنگال ہوچکی ہے ۔ اس لیے رمضان المبارک کے موقع پر تلنگانہ کے غریب مسلمانوں کو دی جانے والی امداد یا رمضان کے تحفے تقسیم کرنے میں ناکام رہی ۔ حکومت اپنی اوقات اور اپنے خزانہ کو وائرس کے حوالے سے لوٹ کھسوٹ کا شکار بنادی ہے ۔ دو ماہ کے لاک ڈاؤن نے حکومت کی مالیاتی ساکھ کو کمزور کردیا ۔ یہ کیفیت حکومت سے لے کر ریاست کے ہر غریب متوسط شہریوں کی ہوچکی ہے ۔ اس سال رمضان میں متمول لوگ بھی اپنے دست تعاون کو دراز کرنے میں کہیں آگے کہیں پیچھے دیکھے گئے ہیں ۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کے چہروں پر کورونا کے خوف کا ماسک لگنے کے بعد اس ماسک میں اپنے چہرے چھپا کر بعض متمول افراد نے اس سال کی زکواۃ کی رقم کو بھی ماسک لگادیا ۔ بعض مسلمانوں کے چہروں پر سیاہ ماسک کے ساتھ اپنے دلوں کو بھی سیاہ ماسک سے چھپا دیا ۔ نتیجہ میں ایک مسلمان کی میت کو شمشان گھاٹ میں دفن کرنا پڑا ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حیدرآباد جہاں مسلمانوں کی ہزاروں ایکڑ اراضیات ، اوقافی زمینات اور بڑے بڑے قبرستان ، درگاہیں ، خانقاہیں ، متولیان ، سجادہ نشین اور تمام نہاد مسلم قائدین اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والی تنظیمیں ہیں اس کے باوجود ماہ رمضان میں ایک مسلم خاندان کو اپنے والد بزرگ کی نعش دفن کرنے کے لیے قبرستانوں کے ٹھیکیداروں سے بھیک مانگنے اور رقم دینے کی پیشکش کے باوجود دو گز زمین نصیب نہیں ہوئی ۔ یہ واقعہ راست طور پر اس شہر کے مسلم قائدین کے ساتھ ساتھ اوقاف کے ذمہ داروں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ یہ لوگ اپنے مفادات کی دنیا میں اس قدر مگن ہیں کہ ان کے چہروں پر کس قدر زور دار طمانچہ لگے اس کا احساس نہیں ہوتا یا انہوں نے بے شرمی کا ماسک لگا رکھا ہے ۔

ایک طرف حکومت نے سماجی دوری کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کے لیے جنازوں میں صرف 20 افراد کی شرکت کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف مسلم قبرستانوں کے ٹھیکیداروں نے اس نازک گھڑی میں اپنے قبرستانوں کے گیٹس کو ان غریب مسلم خاندانوں کے لیے بند کردیا ہے ۔ ان لوگوں کے چہروں کے ماسک ان کی ڈھٹائی کو پوشیدہ رکھنے میں ناکام رہے جب اس واقعہ کو وائرل کیا گیا تو تمام نام نہاد مسلم نمائندے بغلیں جھانکنے لگے ۔ ان کے چہروں پر لگے عیاری کے ماسک کا فائدہ بھی انہیں حاصل ہورہا ہے اس سے ان کی مکاری اور ان کے گندے جذبات احساسات اور خیالات کا پتہ نہیں چلتا ۔ حیدرآباد کے مسلم معاشرے بھی یہ لوگ پوری درندی کے ساتھ اپنے چہروں پر مکاری کے ماسک لگا کر گھوم رہے ہیں ۔ وقف بورڈ کے ذمہ داروں نے بھی اس ماسک کے پیچھے اپنی نا اہلیت اور کم عقلی کو پوشیدہ رکھ کر حکومتوں کی طرح آدھا سچ اور آدھا جھوٹ بولتے ہوئے مسلم اوقافی جائیدادوں کی نگہبانی کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے چہروں پر لگنے والے ماسک نے تو اب ان لوگوں کو بے شمار فائدے پہونچانے شروع کئے ہیں ۔ کے سی آر کی حکومت نے جب ماسک لگا کر اس سال غریب مسلمانوں کو فراموش کردیا تو ان کے نمائندوں کو مسلمانوں کی میتوں کی تدفین کے لیے زمین دینے کی توفیق کیسے ہوگی ؟ حکومت نے اس سال کے عید کے تحفے غائب کردئیے ہیں ۔ حکومت نے اس سال بجٹ میں رمضان کے تحائف کے لیے رقومات مختص کیے تھے ۔ سال 2015 سے عید الفطر کے موقع پر ہر سال غریبوں میں رمضان گفٹس تقسیم کرنے والی کے سی آر حکومت کو مالی بحران کے باعث یہ رمضان تحائف کی اسکیم منسوخ کرنی پڑی ہے ۔

حکومت نے بجٹ 2020-21 کے لیے ریاست بھر کی مساجد میں افطاری کے اہتمام کے لیے 66 کروڑ روپئے مختص کئے تھے ۔ اس رقم کے ذریعہ غریب مسلمانوں کو کپڑے بھی دئیے جاتے تھے ۔ ہر سال حیدرآباد میں چیف منسٹر کی جانب سے افطار پارٹی کے لیے بڑی رقم خرچ کی جاتی تھی ۔ اس سال یہ افطار پارٹی بھی نہیں ہوئی ۔ اب اس رقم کو غریبوں میں اناج تقسیم کرتے ہوئے خرچ کرنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہوگی ۔

کیوں کہ حکومت کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے ۔ حکومت کی منہ بولی دوست جماعت کے قائدین نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ رمضان کے گفٹس منسوخ کر کے رقم کو اناج کی تقسیم کے لیے خرچ کرے ۔ یہ کہاں تک صحیح ہے اس کا علم بھی انہی دوستوں کا ہوگا ۔ یہ لوگ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر دکھاوا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اسلامی نکتہ نظر سے یہ بات عام ہے کہ جب کوئی کسی کو ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلنا چاہئے ۔ یہاں تو دینے والوں نے اپنے سارے ہاتھوں کو پتہ چلنے دیا ہے اس طرح یہ لوگ اپنی خیرات اور فراخدلی کا مظاہرہ کیوں نہ کریں ، اس طرح کرنے سے انہیں دلی سکون ملتا ہے ۔ کورونا وائرس نے انہیں غریب عوام کی عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ کم و بیش گذشتہ 3 ماہ سے غریب عوام اناج کی تقسیم کی تشہیر والے مقامات پر ادھر سے اُدھر دوڑ رہے ہیں لیکن تشہیری جانبازوں تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہوپائی ۔ کہنے کو تو کورونا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی تعداد یا متاثرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ غریب ، محتاجوں اور پریشان حال عوام کی پریشانیوں کا سلسلہ بھی بڑھ رہا ہے ۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یعنی غریبوں کی پریشانیاں ختم نہیں ہوں گی ۔ موسم گرما میں کورونا وائرس کے خاتمہ کی امید رکھنے والوں کے لیے عالمی صحت تنظیم WHO نے یہ بھی وارننگ دی ہے کہ یہ وائرس موسم برسات اور سرما میں دوبارہ سر ابھار سکتا ہے ۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر کا اندیشہ دکھا کر ہلاکتوں اور وباء کے پھیلاؤ پر عوام کو خوف زدہ کرنے کی بھی دوسری مہم شروع کی جارہی ہے تو یہ خوف کا ماحول افسوسناک حد تک بڑھے گا ۔ کورونا کی ڈیڈ باڈیز کو ان کے ورثاء اور لواحقین کو نہیں دیا جارہا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے رشتہ دار بھی نہیں آرہے ہیں ، یہ انسانی المیہ ہے ۔ اس المیہ کو چھپانے کے لیے بھی لوگ ماسک کا سہارا لیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ ماسک لگانے کو فرض کفایہ کی ادائیگی تصور کررہے ہیں اس کے لیے ایسے لوگ داد کے مستحق بھی ہیں کیوں کہ قبرستانوں کی چوکیداری کے نام پر مسلم نعشوں کے ساتھ سودا کرنے والے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھ کر بڑی شخصیت بن جاتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ ذہن سے سوچنے والوں کے درمیان قبرستانہ ذہن رکھنے والے بھی آشکار ہورہے ہیں ۔ بُرے وقت میں دشمن میں بھی خوبی دیکھی جاتی ہے تو سر تسلیم خم ہوتے ہیں ۔ اپنوں کی تنگ نظری کو سپاس نامہ پیش کرنے والوں کے لیے یہ سبق کافی ہے کہ کورونا وائرس نے انسانی زندگیوں کو جھنجھوڑ کر رکھدیا ہے ۔ سال 2020 ایک اہم سال ہے اس بارے میں ایک ہمدرد انسان کے سنہرے الفاظ یہ ہیں کہ اس سال انسانوں کو اپنے نفع نقصان کی فکر نہیں ہونی چاہئے ۔ اپنے خوابوں اور منصوبوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ سال آپ زندہ رہیں تو یہی کافی ہے ۔ انسان زندہ رہنے کے ساتھ انسانیت باقی رہ جائے تو یہی منافع ہے۔