حیدرآباد۔ ’’ لکھنوی معاشرت اور کردار نگاری کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں ‘فسانہ آزاد’ زندہ جاویدہو گیا۔اس ناول میں خوجی کا کردار لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کا استعارہ ہے ۔ وہ طرز ِکہن پر اڑنے والے اور آئینِ نو سے ڈرنے والے افراد کی نمائندگی کرتا ہے ۔ وہ اپنے معاشرے کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے ۔‘‘ ان خیالات کا اظہار افسانہ نگاراور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسربیگ احساس نے’بازگشت‘ کی جانب سے پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول ’ افسانۂی آزاد‘ ’ایک رئیس کا دربار‘ کی پیش کش اور تنقیدی گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں صدارتی خطاب میں کیا۔انھوں نے مصاحبین کی خوشامد پسندی اور نوابوں کے ساتھ ان کی بے ایمانی کوبہت حدتک حقیقت پر مبنی قرار دیا۔ اس موقعے پر مہمانِ خصوصی معروف فکشن نقاد اور شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ابو بکر عبادنے کہا کہ پنڈت رتن ناتھ سرشارکے ناول ’فسانہئ آزاد‘کامطالعہ کرتے وقت تہذیب و ثقافت کے حوالے سے تاریخی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔سرشار کو مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ واقفیت نہیں تھی کیوں کہ مسلم گھرانوں سے ان کا رابطہ کم تھا۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نوابوں اور مصاحبین سے متعلق جو باتیں پیش کی ہیں وہ پوری طرح حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی تخلیق کو ناول نہیں کہا لیکن انھیں اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا گیا اور سرشار نے دعویٰ کیا کہ ’ افسانہئ آزاد‘ اردو کا پہلا ناول ہے ۔لیکن انھیں یہ اولیت حاصل نہ ہوسکی۔ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ناول ہے ۔ اس سے قبل معروف افسانہ نگار اورانجمن اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ٹیچر ایجوکیشن، ڈاکٹر قمر سلیم نے بے عمدہ اور دلچسپ انداز میں ٹھہر ٹھہر کر اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ’ افسانہئ آزاد‘کا منتخب حصہ ’ایک رئیس کا دربار‘ پیش کیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس نے سرشار کے قیام حیدرآباد کے زمانے پر روشنی ڈالی ۔اوررسالہ ‘دبدبہئ آصفی’سے ان کی وابستگی اور مہاراجا کشن پرشاد شاد کے کلام پر اصلاح سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ڈاکٹر احمد خاں نے کہا کہ تہذیب کے حوالے سے اس ناول پر ازسر نو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹرعذرا نقوی، سید محمود کاظمی،ڈاکٹر غوث ارسلان،ڈاکٹر عائشہ بیگم، مظہر عالم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم نے رتن ناتھ سرشار کا مختصر تعارف پیش کیا۔ مجلسِ منتظمہ کی رکن ڈاکٹرگلِ رعنا نے جلسے کی نظامت کی اور ڈاکٹر قمر سلیم کا تعارف بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر حمیرہ سعید نے ڈاکٹر ابوبکر عباد کا تعارف کرایا اورپروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔