خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن فاروقی
جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو جامع مسجد دہلی کے منبر سے امام الہند مفسر قران مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے بکھری بے یارو مددگار ملت اسلامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’مسلمانوں عہد کرو، یہ ملک ہمارا ہے، ہم اسی کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے بھی رہیں گے، مسلمانوں، تم کدھر جارہے ہو، کیا اسی جامع مسجد کی تعمیر کیا تم نے کی کیا لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار تمہارا نہیں، کیا اس مسجد کے حوض پر تم نے نماز فجر کا وضو نہیں کیا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ عمارتیں شکوہ کریں گی، حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرو، نصرت الٰہی شامل حال رہے گی، مصلے سے فرار مصلے کامل نہیں ہے‘‘۔

دراصل ایسے فیصلوں کی امیدیں ہماری کاوشوں، جستجو، جدوجہد اور حوصلوں، ہمتوں کو پست نہیں کرسکتی، یہ ہر مخالف غیر متوقع، اسلام یا مسلمان دشمن فیصلے ہماری اتحاد اور بنیاد کو مضبوط کررہی ہے جس پر اسلامی عمارت ٹھہری اور پختی ہو رہی ہے۔ اس میں دراصل نوجوانوں کے کندھوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر نبی کا ایک اثاثہ ہے، میرا اثاثہ میری امت کے نوجوان ہیں۔

نوجوان قوم و ملت کے لئے بہت بڑی طاقت اور سہارا ہوتے ہیں اور ان کے والہانہ جوش اور جذبہ سے حصول مقصد میں بڑی مدد ملتی ہے۔ بشرطیکہ اس میں اخلاص و للاہیت ہوتو مدد الٰہی شامل حال ہو جاتی ہے، تاریخ اسلام اس سے لیکر تاریخ ہند اور تاریخ دکن اس سے بھری پڑی ہے، حضرت مصعب بن عمیر پورے مدینہ منورہ کے نوجوان استاد، حضرت سعد بن ابی وقاص فاتح قیصر (ایران) حضرت جعفر طیار تنہا قلعہ کو فتح کرنے والے نوجوان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ و اجمعین یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں سندھ تک پیشقدمی کرنے والے 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسم، فاتح قبلہ اول بیت المقدس صلاح الدین ایوبی، ہند کی تحریک آزادی کے جرأت مند، بلند ہمت کے حامل محمد علی جوہر، اشفاق اللہ، مولانا آزاد، کانگریس کے کم عمر نوجوان صدر۔ دکن کی تاریخ میں بہادر یار جنگ کے کارنامے، یہ تمام چیزیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور یہ بتا رہی ہیں کہ امت کا نوجوان متحرک ہو جاتا ہے تو انقلاب برپا کرتے ہوئے کامیابی کو اس پر مقدر کرلیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے
Communist
تحریک ہویا کوئی باغیانہ عنصر، تمام ہی نوجوانوں کو ورغلاکر ہی کامیاب ہوئی ہیں۔ اب نوجوانوں کو نیک اور اعلیٰ مقصد کے تحت منظم کام کرتا ہے، ہمیں زندگی کو ایک اصول بنانا چاہئے تاکہ ہمیں خوش رہتا ہے یہ اصول پر جو کھویا اس کا غم نہیں جو پایا کسی سے کم نہیں، جو حاصل کرنا ہے اس خواب کو تکمیل کے لئے تاپڑتوڑ محنت سے پیچھے ہٹنا نہیں، تب جو ملیگا وہ لاجواب ہوگا۔یہ نہیں دیکھو کہ تمہاری حصول جدوجہد میں کوئی تمہارے ساتھ مخلص ہے یا نہیں تم خود ہر رشتے ہر شخص کے ساتھ مخلص رہو، اگر کوئی تمہارے ساتھ منافقت کرے گا تو وہ اس کا صلہ اللہ سے پالیگا اور تمہیں تمہاری سچائی اور مخلصی کا اجر بھی اللہ دیگا۔

یاد رکھو اگر تم خاص کر نوجوان صحیح دھارے پر لگ جائیں تو پتھر کی چٹان بھی پاش پاش ہو جائیگی، حسن زن کے ساتھ کئے جانے والے کام حائل ہونے والی تمام رکاوٹیں نوجوانوں کے ساتھ دینے والی نصرت الٰہی بہالے جاتی ہے، دشمنوں کے فیصلوں میں یہ دراڑ ڈال سکتے ہیں عظیم قدروں کو بنیادوں کو صلاحیت، اپنے پاک ارادوں کا لوہا منوانے والے انگنت ہونہار نوجوانوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ان کو سراہتے ہوئے مفکر اسلام حضرت سید علی میاں ندوی ؒ نے کہا تھا۔

ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل ہے بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب، اس کی نگاہ دل نواز
لیکن افسوس کہ آج کے نوجوان کی دین سے دوری، دین سے بیزاری دردمندان ملت کے آنسوؤں کو خون آلود کرتی ہیں، ہمارے سینے سے ہونک اٹھتی ہے کہ یہ نئی نسل دین کا ہی نہیں دنیوی زندگی گذارنے کا ڈھنگ بھی بھول گئی ہے۔ بے راہ روی، لاپرواہی، بے حیائی، بے اعتنائی، ماں باپ کی نافرمانی، خود غرضی، دھوکا، فریب، فرنگی طرز زندگی گویا یہ کلمہ گو اپنی راحت اور پہچان بنالیا ہے، عظیم ملت اسلامیہ کا یہ ثبوت مثال بننے کے بجائے مغربیت کے دلدادہ بن چکا ہے، اس کے کردار سے سوز، گفتار واہی کا مثال ہو رہا ہے۔ زمانہ حاضر میں خدا کا آخری پیغام عام کرنے کی ذمہ داری جس کے کندھوں پر دی گئی جو خلیفہ کے لقب سے قرآن میں پکارا گیا حالیہ کورونا
Covid-19 Pandemic
نے تو اس کو مزید تباہ و تاراج اخلاق کا حامل بنا دیا۔ سوشل میڈیا، میاں بیوی کے جھگڑوں، ماں کی نافرمانی، باپ سے بدتمیزی کے کئی مثال پیش کررہے۔اب یہ اندوہناک حالات آپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، خود ہم کو اپنا اپنے گھروں کا محاسبہ کرتے ہوئے آپسی رشتوں میں پھر سے اخلاص، اولاد کی تربیت اولین ترجیح ہے، ہم کہاں ہیں اس پر خصوصی توجہ دینا ہے۔ تب ہی ہم یہ اسلام دشمن فتنوں کا مقابلہ کر پائیں گے۔
امت کا نوجوان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر حاضر دماغی سے حالات کا مقابلہ کرے گا۔ آنے والے انتخابات میں دوست اور دشمن کو پہچان کر اپنے ووٹ کی قوت کا متحدہ مظاہرہ کرے گا تو یقینا ہمارا دبدبہ پھر سے قائم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے کھیت کو پھر سے لہلہاتے بنانے میں ہماری مدد کرے گا۔ دعا ہے کہ رب العالمین ہماری لغزشوں کو معاف کرے، پیغمبر اسلام کی اس امت کو پھر سے سرخروئی عطا فرمانے آمین۔