دل کے سو ٹکڑے ہیں ہر ٹکڑے پہ تیرا نام ہے|| حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

,

   

 دل کے سو ٹکڑے ہیں ہر ٹکڑے پہ تیرا نام ہے||

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

اُمت پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا ایک اہم حق آپﷺ سے محبت ہے ، ایسی محبت جو تمام محبتوں سے فائق ہو ، جو مؤمن کے رگ و ریشہ میں سمائی ہوئی ہو ، خدا کے بعد اس درجہ کی محبت میں کوئی اور شریک نہ ہو ، ایسی محبت جو اپنی ذات ، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہو ، جس میں وارفتگی ، جاں نثاری ، فدائیت اور خود سپردگی ہو ، جس محبت کا سایہ محبوب کے تمام متعلقین تک وسیع ہو؛ چنانچہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کوئی شخص اس وقت تک صاحب ِایمان نہیں ہوسکتا، جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنی ذات سے ، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ ہوجائے (صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۵) صحابہؓ نے واقعی حضور صلی ﷲ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی ، جو صرف زبان سے حضور صلی ﷲ علیہ وسلم پر اپنی جان و اولاد کو قربان کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے تھے ، بلکہ عمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے اور اپنی جان اور اولاد کو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم پر اس خوشی سے نچھاور کرتے تھے کہ گویا ان کی جان کی قیمت وصول ہوگئی ۔

       حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اہل مکہ کے ہاتھ آگئے، بعض لوگوں نے– جن کے مورثِ اعلیٰ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے تھے،– قصاص و انتقام کے طورپر انھیں خرید لیا ، پھر مکہ سے باہر ایک انبوہ کے ساتھ انھیں لے جایا گیا اور اذیت پہنچا پہنچا کر سولی پر چڑھایا گیا ، عین اس وقت جب آزمائش کا یہ پہاڑ اس مردِ مومن کے اوپر ڈھایا جارہا تھا ، پوچھا گیا : کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ آج تمہاری جگہ ’’ محمد ‘‘ ( صلی ﷲ علیہ وسلم ) ہوتے اور تم اس مصیبت سے بچ جاتے ؟ حالانکہ ایسی مصیبت کے وقت میں دل کے اطمینان کے ساتھ زبان سے کلمۂ کفر ادا کرلینے کی بھی اجازت ہے ، ( الموسوعۃ الفقہیہ : ۶؍۱۰۷ ، مادہ اکراہ ) لیکن حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے جذبۂ محبت پر قربان جائیے کہ اس وقت بھی فرماتے ہیں : ’’ خدائے عظیم کی قسم ! مجھے تویہ بھی گوارا نہیں کہ اس تکلیف سے بچ جاؤں اور میرے آقا کے قدم مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے ‘‘ ۔ ( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۶ )

     حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ ابوسفیان کی گرفت میں ہیں ،( جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے ) زید رضی اللہ عنہ کے قتل کی تیاری ہورہی ہے اور سرقلم کئے جانے کو چند لمحہ رہ گیا ہے ، اتنے میں ابوسفیان نے استفسار کیا : اے زیدؓ ! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد ( صلی ﷲ علیہ وسلم ) یہاں ہوتے ہم ان کا سرکاٹ لئے ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے ؟ حضرت زید نے عین تلوار کی چھاؤں میں فرمایا : ’’ مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اِس وقت میں اِس تکلیف سے بچ کر اپنے گھر میں رہوں اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کواپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک کانٹا بھی چبھ جائے ‘‘ ۔( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۵ )

         غزوۂ بدر کے موقع سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں خود ان کے صاحبزادے آگئے ، جو ابھی کفر کی حالت میں تھے ، وقت گذرا ، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی ، پھر صاحبزادے نے عرض کیا : ابا جان ! غزوۂ بدر میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ میرے نرغہ میں آگئے تھے ، لیکن باپ کی محبت غالب آگئی ، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ لیکن اسلام و کفر کی اس جنگ میں اگر تم میرے نرغہ میں آگئے ہوتے تو میں تمہیں معاف نہیں کرتا ‘‘ ۔( دیکھئے : الإستیعاب ، ذکر عبدالرحمن بن ابی بکر )

      عبدﷲ بن ابی خود منافق تھا ، ان کے لڑکے حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ مخلص مسلمان تھے ، ان پر اپنے والد کا منافق ہونا بھی ظاہر تھا ، مدینہ میں افواہ تھی کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم ان کے نفاق کی وجہ سے ان کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، جب حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی ، تو بارگاہِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : سنا ہے کہ آپﷺ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگر آپﷺ کا یہ منشاء ہوتو میں خود اپنے والد کا سرقلم کرکے آپﷺ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، آپ نے منع فرمادیا ، (الروض الأنف : ۷؍۲۳) گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی ۔

         حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی محبت کے تقاضہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپﷺ کے تمام متعلقین سے محبت ہو ، آپ اکے اہل بیت سے محبت ہو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے محبت ہو ، یہ محبت کا فطری تقاضہ ہے ، کہ جو چیز عزیز ہوتی ہے، اس سے تعلق رکھنے والی ساری ہی چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں ، اس لئے سلف صالحین اہل بیت سے بھی محبت رکھتے تھے اور صحابہ سے بھی ، اہل بیت سے محبت نہ ہو اور ان کی توقیر و احترام کا جذبہ نہ ہوتو یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کما حقہ محبت سے محرومی ہے ؛ کیوں کہ اہل بیت کی محبت اس نسبت کی وجہ سے ہے جو انھیں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم سے حاصل ہے، اور ان کی محبت سے محروم ہونا اس نسبت کی ناقدری ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کے بارے میں فرمایا : جس کی ان حضرات سے لڑائی ہو ، میری اس سے لڑائی ہے اور جس کی ان حضرات سے صلح ہو میری ان سے صلح ہے ’’ أنا حرب لمن حاربھم وسلم سالمھم ‘‘ (سنن ترمذی ، حدیث نمبر : ۴۹۶۵) سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی محبت اور ان سے بغض کو آپ نے ایمان اور کفر کے لئے معیار بنایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت علی ؓ سے اسی کو محبت ہوگی جس کے اندر ایمان ہوگا ، اور حضرت علیؓ سے اسی کو بغض ہوگا جس میں نفاق ہوگا ’’ لا یجب علیاً إلا مؤمن ولا یبغضہ إلا منافق ‘‘ ( المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث نمبر : ۸۸۶ )

        اسی طرح رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے صحابہ آپﷺ کے وہ رفقاء ہیں ، جنھوں نے آپﷺ کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دی ہے ، جن کو براہِ راست صحبت ِنبوی اسے فیض اُٹھانے کا موقع ملا ہے ، جو بلا واسطہ آپﷺ کے پرداختہ اور تربیت یافتہ ہیں ، ان سے بغض رکھنا یا ان کی تنقیص کرنا دراصل بالواسطہ آپﷺ کی تربیت پر حرف گیری کرنا ہے ، آپﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہؓ کو بُرا بھلا نہ کہو ، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مُد یا نصف مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوگا : ’’ فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھباً ما بلغ مد أحدھم ولا نصفہ ‘‘ (بخاری ، حدیث نمبر : ۷۳۳۶ ) ’’ مُد ‘‘ ایک پیمانہ ہے ، جس میں بہت کم مقدار آتی ہے ، اسی لئے اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ ث قابل احترام اور قابل محبت ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں ، بدقسمتی سے اِدھر کچھ عرصہ سے برصغیر میں بعض ایسی تحریریں منظر عام پر آئیں ، جن میں اہل بیت یا دوسرے صحابہؓ کے بارے میں بے توقیری اور بغض و کدورت کا رویہ اختیار کیا گیا ، ایسی باتوں کو قبول کرنا آپﷺ کی محبت اور تعظیم و توقیر کے مغائر ہے ۔

            حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے متعلقین میں آپﷺ کی اُمت بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نسبت نے اس اُمت کو ایک عالم گیر اور آفاقی خاندان بنادیا ہے ، جیسے انسان کو باپ دادا کے رشتہ سے وجود میں آنے والے خاندان سے محبت ہوتی ہے ، وہ ایک دوسرے کا خیر خواہ اور معاون و مددگار ہوتا ہے اور دشمنوں کے مقابلہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے ، اسی طرح پوری اُمت ایک خاندان کا درجہ رکھتی ہے ، جیساکہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے باپ کے درجہ میں ہوں (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۳۱۳) اور جیساکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں ۔ (حجرات:۱۰)

          افسوس کہ اُمت کے ایک وسیع خاندان ہونے کا تصور ہمارے ذہنوں سے نکل گیا اورمسلکوں ، تنظیموں ، جماعتوں ، درسگاہوں ، خانقاہی نسبتوں ، علاقوں ، زبانوں ، پیشوں اوربرادریوں کے دائرہ میں ہماری محبت سکڑ کر رہ گئی ہے ، ہم نے اس حقیقت کو بھلا دیا کہ رسول ﷲﷺ اپنی اُمت کے ایک ایک فرد سے محبت فرماتے تھے ، نہ عرب و عجم کی تفریق تھی ، نہ کالے گورے کی تمیز ، نہ مہاجرین و انصار کی تفریق ، نہ دولت مندوں اور غریبوں میں امتیاز ، یہاں تک کہ اُمت کے کسی فرد سے گناہ کا ارتکاب ہوتا تو آپﷺ کو گناہ سے نفرت ضرور ہوتی؛ لیکن آپ کا سینۂ مبارک اس گناہ گار اُمتی کی محبت سے بھی معمور ہوتا ، اگر اس کے بارے میں کوئی شخص ناروا فقرہ کہہ دیتا تو آپﷺ سخت ناراض ہوتے ، کاش ! مسلمان اس حقیقت پر توجہ دیں کہ ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہمیں ایک اُمت بنایا تھا؛ لیکن آج ہم نے اپنے درمیان فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اتنی اونچی دیوار کھینچ لی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں ، حضور صلی ﷲ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہمیں اس پوری اُمت سے بھی محبت ہو ، جس اُمت کی تشکیل آپﷺ کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی ۔

         بہر حال نبی سے اُمت کا تعلق محض قانونی اطاعت اور آئینی احترام کا نہیں ہے ؛ بلکہ ضروری ہے کہ اس کے پیچھے بے پناہ محبت کار فرما ہو ، ایسی محبت کہ انسان لٹ کر محسوس کرے کہ اس نے پایا ہے ، ایسی محبت کہ انسان کھو کر سمجھے کہ اس نے حاصل کیا ہے ، ایسی محبت جس میں کانٹوں کا بستر پھولوں کی سیج کا لطف دے اور شعلہ و آتش کے فرش میں بھی انسان شبنم کی خنکی محسوس کرے ، جنون کو چھوتی ہوئی محبت اور فدا کاری کے جذبہ سے معمور اتھاہ چاہت ، یہی محبت آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے حضرات صحابہؓ کی تھی ۔

          یہ حب نبویﷺ ایمان کی حفاظت کا بہت بڑا اثاثہ ہے ، ﷲ کا شکر ہے کہ مسلمان کتنا بھی گیا گذرا ہو ، بے نمازی ہو ، فرائض سے غافل ہو ، شراب و کباب جیسی بری عادتوں میں مبتلا ہو ، دین سے نابلد اور احکام شریعت سے ناواقف ہو؛ لیکن اس کے سینے میں حب نبوی کی چنگاری ضرور موجود ہوتی ہے ، جو وقت پڑنے پر شعلہ ٔ و آتش بلکہ آتش فشاں بن جاتی ہے ، اس جذبۂ محبت کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے؛ بلکہ اس کی لَو کو اور بڑھانا اور تیز کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے آباء واجداد سے حاصل ہونے والی اس امانت کو اگلی نسلوں تک پہنچانا چاہئے ، یہ محبت اسی وقت پروان چڑھے گی ، جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی پہچان ان میں پیدا ہو اور یہ پہچان کیوں کر پیدا ہوگی اگر وہ سیرت نبوی سے آگاہ نہ ہوں؟ مقام افسوس ہے کہ ہمارے بچے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے بارے میں بنیادی باتوں سے بھی واقف نہیں ہیں ، انھیں صحیح طورپر آپ کا اور آپ کے قریبی متعلقین کا نام تک معلوم نہیں ، کیا اپنے بچوں کو سیرت محمدی سے واقف کرانے میں بھی ہمارے لئے کوئی رکاوٹ ہے ؟ حق محبت کا ایک ادنیٰ حصہ بھی اسی وقت ادا ہوگا جب ہم محبت کی اس امانت کو اپنی نسلوں تک پہنچائیں گے ۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ