دولت اور اقتدار کی ہوس

   

خواجہ رحیم الدین
محترم قارئین! ہمیں یاد رہے اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ بُرے اعمال سے ہم دور رہیں۔ آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان اور طاقتور ہوتی رہتی ہیں۔ ایک دولت کی حرص اور دوسری زیادتی عمر کی حرص ۔ اگر دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں، تو وہ ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کرسکتے جتنا آدمی کو مال اور عزت و جان کی حرص تباہ کرتی ہے۔ انسان کہتا ہے ’’میرا مال ، میرا مال‘‘ حالانکہ اس کے مال میں سے بس تین چیزیں اس کی ہیں۔ ایک وہ اس نے کھا کر ختم کردیا۔ دوسرے وہ جو پہن کر پرانا کر ڈالا اور تیسرے وہ جو اس نے راہ خدا میں دیا اور اپنی آخرت کے واسطے ذخیرہ کرلیا، اس کے سواء جو کچھ ہے، وہ انسان دوسرے لوگوں کے لئے چھوڑنے اور یہاں سے ایک دن رخصت ہوجانے والا ہے۔ شکور احسن کہتے ہیں:
میری موت ہے حق پر
میرے آگے بقاء کھڑی ہے
زندگی میں جو کچھ ملتا، صبر شکر سے گذارہ کرنا ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا بہتر ہے۔ دولت کی حرص سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو ہوس کے حوالے نہ کریں بلکہ حالات کو بدلنے کی ٹھان لیں۔ اپنی ہوس کی غلطی کو تسلیم کریں، اگر کبھی ناکامی ہو بھی جائے تو اس کا الزام دوسروں پر نہ ڈالیں، ہوس کو قابو میں رکھیں۔ غلطی بار بار نہیں ہونی چاہئے۔
دولت اور اقتدار کو ساتھ رکھتے ہوئے کیا خوش رہنا بہت آسان ہے یا مشکل، اس کا فیصلہ تو ہم خود کو کرنا ہے، ہم ہوس میں یہ سمجھتے ہیں کہ پرسکون زندگی گذار رہے ہیں، یکایک کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آجاتا ہے اور اب ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا، ہوس ایک بیماری ہے، تب ہم خاموش جدائی میں آنسو نکال لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔ دولت اور اقتدار کی ہوس سے دور رہنا چاہئے، ہم کو ان تمام حالات کا سامنا کرنا ضروری ہوجاتا ہے، ان تلخ تجربات سے بچنا ضروری ہے۔ کچے ذہنوں کو سنوارکر رکھنا ضروری ہے۔ ہم عمر کے جس دور سے گذر رہے ہیں، ہم خود اچھے برے میں بہتر انداز میں فرق کرسکتے ہیں۔
اللہ نے ہر عمر کے مختلف تقاضے رکھے ہیں، دولت اور ہوس کی بھوک کو دور رکھنے کیلئے اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو تازہ دم کرلینا چاہئے۔ ہوس سے دور رہنا چاہئے۔ احسن شکور نے کہا:
تیری آرزو ہے مگر جرم کوئی
تو اس جرم کی میں سزا چاہتا ہوں
امیر ہو یا غریب تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ ہر ایک کو اپنے لحاظ سے تلخ تجربات سے گذرنا پڑتا، چند ظاہر کرتے ہیں اور چند اپنے دلوں میں چھپا کر رکھتے ہیں اور ایک دن وہ دل اپنے آپ میں ظاہر کرلیتا ہے اور سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کام میں نے ہوس کی بیماری میں کیا ہے۔
اب تو آرام سے گذرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
ہر انسان ہوس ، اقتدار، دولت ، جھوٹ بولنے والوں سے دور رہنا چاہئے۔ اس لعنت میں خود بھی پریشان رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ مفلسی سے نہ ڈریں کیونکہ ہم سب کا رزاق وہ رب ہے، ہوس ، دولت، اقتدار سے دور رہیں، ہوس ایک بیماری ہے، آج کے ماحول میں یہ بیماری کووڈ۔ 19 کے وائرس سے کم نہیں۔ ہم کتنے ہی طاقتور بن جائیں، دولت، اقتدار مل جائے لیکن ہر شام کو زندگی کا ایک دن کم ہوجاتا ہے اور ہم اس کو روک بھی نہیں سکتے۔ اللہ اتنا مہربان ہے صبح دے کر مہلت بھی دے دیتا ہے۔
اللہ ہوس اور اقتدار سے دور رکھے۔ اللہ پاک ہم سب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے، ہم سب کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرمادے اور ہماری دنیا و آخرت سنوارے دے۔ برائی سے دور رہیں، ورنہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہوگی۔ ہمارے جنت بھی ہے، دوزخ بھی ہے۔ ہم نہ مانے تو مرکے دیکھیں۔ انسان جب یہ مان لے کر وہ غلط تھا تب وہ صحیح ہونے لگ جاتا ہے۔ جتنا دنیا میں رہنا ہے، اتنی دنیا کی تیاری، جتنا آخرت میں رہنا ہے، اتنی آخرت کی تیاری، بس حرص اور ہوس سے بچنا ضروری ہے۔ آخرت کیلئے کچھ بھیج رہے ہیں یا حرص میں یہاں لٹا رہے ہیں، کمائی کرنے آئے ہیں، عیش کرنے نہیں آئے۔رسول اللہ فرماتے ہیں: دنیا میں ایسے رہو، جیسے مسافر رہتا ہے۔ سورج کبھی مغرب سے طلوع نہیں ہوا۔
شیخ سعدیؒ کہتے ہیں: دوستی کا رشتہ بہت بہتر ہے رشتہ داری سے کیونکہ اس میں حرص نہیں ہوتی بلکہ رشتے داروں سے رشتہ خون کا ہوتا ہے، دوستوں سے رشتہ دولت سے نہیں دل سے ہوتا ہے۔ دل سارے جسم کو خون مہیا کرتا ہے۔ دولت اور حرص کی ہوس اس کے مماثل ہے جیسے شیطان کے بتلائی ہوئی راہ پر چلنا۔ ہوس کی حد سے زیادہ تمنائیں انسان کو اندھا کردیتی ہیں۔ کسی چیز کی ہوس کی تمنا نہ کریں بلکہ خود کو اس قابل بنائیں کہ لوگ تمنا خود کریں۔ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے۔ دولت و اقتدار کی ہوس اتنی بری ہوتی ہے کہ بیٹا، باپ سے باپ، بیٹے سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ جب بندہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے تو آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ہمارے اندر اقتدار کی حرص و ہوس کو دور رکھتے ہیں۔ حرص کو تین ابواب میں رکھا گیا ہے، دولت ، اقتدار، ہوس یہ تینوں ابواب انسان کو انسانیت سے دور کردیتا ہے۔ دہ ایک آئینہ ہے جس میں اگر میل نہ ہو تو خدا بھی نظر آتا ہے، دل کی صفائی ضروری ہے۔ انسانی معاشرہ میں اچھا فرد وہی ہے جو دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اُٹھاتے ہوئے تلخ زندگی کو خوشگوار بنانا چاہئے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
دنیا میں سب سے تیز رفتار چیز دعا ہے کیونکہ دل سے زبان تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتی ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو زمین و آسمان کی تمام آفات ، حرص و ہوس سے محفوظ رکھے ۔ (آمین)