پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
دنیا بھر میں ہر مسئلہ کا حل جنگ نہیں ہے، جنگ و جدال نہ صرف دنیا بلکہ ساری انسانیت کو تباہ و برباد کرکے رکھتی ہیں۔ جنگوں کے نتیجہ میں تباہی و بربادی اور ہلاکتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا خاتمہ کب ہوگا۔ جنگیں شروع کرنے والے تو جنگوں کا آغاز کردیتے ہیں لیکن جنگوں کا روکنا ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ وہ ان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ راقم الحروف نے پوپ پال VI کی زبردست تعریف و ستائش کی جنہوں نے 1965 میں پرزور انداز میں کہا تھا کہ ’’اب مزید جنگیں نہیں، جنگ کبھی نہیں‘‘ جنگوں کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ جنگیں ناراضگی اور سخت عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ 51 ملکوں نے 1945 میں بڑے نیک مقاصد کے ساتھ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کا قیام عمل میں لایا۔ اس کے اغراض و مقاصد میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ دنیا کے تمام ممالک پرامن بقائے باہم کے ساتھ رہ سکیں، ترقی کرسکیں اور اپنے عوام کی زندگیوں میں بہتری لاسکیں لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو فی الوقت اقوام متحدہ اپنے قیام کے اغراض و مقاصد میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 80 برسوں کے دوران اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے بے شمار جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں کروڑوں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ سردست دنیا میں دو جنگیں جاری ہیں ایک تو روس۔ یوکرین جنگ اور دوسرے اسرائیل۔ حماس جنگ۔
روس۔ یوکرین جنگ نے روس: یوکرین جنگ کا آغاز 24 فروری 2022ء کو اس وقت ہوا جب روس نے یوکرین پر قبضہ کیا۔ یوکرین یو ایس ایس آر کے زمانہ عروج میں سویت یونین کا ایک جمہوریہ تھا جہاں بے شمار روسی اور روسی زبان بولنے والے لوگ رہا کرتے تھے اور وہ علاقہ یوکرین کے طور پر جانا جاتا تھا۔ 1991ء میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سویت یونین خود تحلیل ہوگیا اس کا شیرازہ بکھر گیا نتیجہ میں یوکرین ایک اقتداراعلیٰ ایک جمہوریہ بن گیا۔ سال 2014ء اور 2022ء کے درمیان روس نے کریمیا کو زبردستی خود میں ضم کرلیا۔ اس کے علاوہ ڈونیٹسک Donetsk اور لوہانسک کا بھی انضمام کرلیا اور یہ انضمام ایسا لگتا ہے کہ روس اور اس کی بقاء کیلئے ضروری ہوگیا تھا۔ روس نے تو عالمی برداری کو یہی تاثر دیا ہے۔ یوکرین پر قبضہ کو یہ کہتے ہوئے روس نے منصفانہ اور حق بجانب قرار دیا کہ اس نے NATO کی رکنیت حاصل کرنے کی درخواست دی جبکہ NATO ممالک اپنے دائرہ اثر کو وسعت دینے اور روس کو گھیرنے یوکرین کا استعمال کررہے تھے۔ روس کا اگرچہ کہ یہ موقف ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یوکرین ایک آزاد خودمختار ملک ہے۔ وہ NATO کا رکن بنے یا نہ بنے اسے اپنی بقاء کا حق حاصل ہے اور ایسے میں دنیا کو چاہئے کہ اس کی آزادی اور سلامتی کی طمانیت دے۔ روس کے قبضہ اور پھر جنگ نے یوکرین کی بقاء اس کے وجود کیلئے خطرہ پیدا کردیا ہے چنانچہ 10 ستمبر 2025ء تک یوکرین میں تعینات اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس مانیٹرنگ مشن نے قتل و غارت گری باالفاظ دیگر انسانی اتلاف کے واقعات کا جو اندراج کیا اس کے مطابق اس جنگ میں کم از کم 14116 یوکرینی شہری ہلاک ہوئے جبکہ زخمی یوکرینی باشندوں کی تعداد 36481 بتائی گئی ہے۔ فی الوقت یوکرین کی سرزمین کو ایک تباہ شدہ سرزمین کہا جاسکتا ہے جہاں روسی فضائی حملوں میں ہاسپٹل، اسکولس، مکانات، عمارتیں و صنعتیں تباہ و برباد ہوگئیں ہیں۔ بمباری کے نتیجہ میں یہ تمام عمارتیں ؍سہولتیں زمین کے برابر ہوگئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شہری اپنی زندگیاں بچانے محفوظ مقامات منتقل ہوگئے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں سے راہ فراری اختیار کی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 5.6 ملین شہریوں نے فرار اختیار کی ہے جبکہ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے یوکرینی شہریوں کی تعداد 3.7 ملین بتائی جاتی ہے اگر اس جنگ میں روس اور یوکرین کو ہوئے جانی و مالی نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف ہلاک ہونے والے سپاہیوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ مرنے والے سپاہیوں میں شمالی کوریا کے فوجیوں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ تاریخ میں یقیناً یوکرین جنگ کو دنیا کی جنگوں میں ایک بے کار جنگ کے طور پر رقم کیا جائے گا۔ تاریخ اس جنگ کو غیراخلاقی اور غیرمساوی و غیرمتوازن جنگ کے طور پر درج کرے گی۔
اسرائیل۔ حماس جنگ : دنیا میں روس۔ یوکرین جنگ کے بعد جو دوسری جنگ چھڑ گئی وہ اسرائیل۔ حماس جنگ ہے۔ حماس غزہ میں حکمرانی کرتی ہے جو فلسطین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس علاقہ نے پچھلے کئی دہوں سے بے شمار خونین جنگوں کا مشاہدہ کیا۔ خون آشامی کی تاریخ کے باوجود 7 اکٹوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملے کئے جو پوری طرح اشتعال انگیز اور قابل مذمت تھے۔ حماس کے ان حملوں میں 1200 اسرائیلی (جن میں زیادہ تر شہری شامل تھے) ہلاک ہوئے۔ ساتھ ہی حماس نے 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنالیا جن میں کچھ ہنوز حماس کے قبضہ میں ہیں۔ اسرائیل نے جو انتقام لینے کے معاملہ میں کافی بدنام ہے 7 اکٹوبر 2023ء کے حملوں کے بعد غزہ پر شدید حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد غزہ سے تمام فلسطینیوں کا انخلا کروانا اور سارے فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنا تھا۔ ویسے بھی بیشتر فلسطین بالخصوص مغربی کنارہ کے زیادہ تر حصہ پر اس کا کنٹرول اور قبضہ ہے۔ اگرچہ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتی ہے لیکن اسرائیل اسی تجویز یا مشورہ کی شدت سے مخالفت کرتا ہے۔ آپ کو بتادوں کہ 7 اکٹوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 67000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں غزہ میں ساری بنیادی سہولتیں یا انفراسٹرکچر پوری طرح تباہ ہوگیا ہے۔ غذا، پانی اور ادویات نہ ملنے کے نتیجہ میں وہاں لوگ مسلسل اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں اور اس پر طرفہ تماشہ یہ ہیکہ حماس کے خلاف جوابی کارروائیوں کو اسرائیل منصفانہ اور حق بجانب قرار دے رہا ہے لیکن اس کی جوابی کارروائی بلاشک و شبہ پوری طرح نامناسب، انسانی اصولوں و اقدار بلکہ انسانیت کے خلاف ہے اور اس کے اغراض و مقاصد غیرقانونی اور ناقابل قبول ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین خود کا اپنے ملک کا حق ہے اور اسرائیل اس حق سے انہیں محروم کرنا چاہتا ہے جیسا کہ میں نے تحریر کیا ہے اس بات کو کوئی نہیں جانتا کہ حماس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبہ کو قبول کرے گی بھی یا نہیں۔ ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیل کے مطالبات کی توثیق کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر فلسطینیوں کو مزید تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری بلکہ قتل عام سے بچانا ہے تو پھر امن منصوبہ قبول کرنے کے سواء حماس کے پاس کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ ایک بات ضرور ہیکہ ٹرمپ کے امن منصوبہ کو قبول کرنے کا مطلب فلسطین اور فلسطینیوں کے مستقبل کو بیرونی طاقتوں کے حوالے کردینا ہے۔ ساتھ ہی اس کی بھی کوئی گیارنٹی نہیں کہ 157 ممالک کی جانب سے تسلیم کردہ فلسطین کبھی ایک آزاد اور خودمختار ملک بنے گا۔ بہرحال جہاں تک یوکرین جنگ کا سوال ہے ہندوستان نے اس پر اصولی موقف اختیار کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس جنگ میں امن کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن اسرائیل۔ حماس (فلسطین) جنگ میں ہندوستان مثبت کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ مودی حکومت نے فلسطینیوں کے تئیں ہندوستان کی اختیار کردہ قدیم پالیسی سے انحراف کیا ہے۔