’ دکن کوئین ‘ زہرا بیگم کی قربانی سے شروع ہوا حیدرآباد کی پہلی بس کا سفر

   

93 سالہ تاریخ کے ساتھ آج بھی زندہ ۔ ’ Z ‘ نمبر پلیٹ میں چھپی زہرا بیگم کی یاد
اس وقت کی صرف 2 تاریخی بسیں ایک حیدرآباد ، دوسری وجئے واڑہ میں موجود
محمد نعیم وجاہت
حیدرآباد ۔ 7 ۔ اکٹوبر : شہر حیدرآباد میں آج جہاں جدید اے سی ، الیکٹرک اور میٹرو کنکٹیویٹی بسیں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں ۔ وہیں شہر کی تاریخ میں ایک ایسی بھی بس ہے جو اب بھی زندہ روایت کی علامت ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شہر کی سڑکوں پر چلنے والی پہلی بس کونسی تھی ؟ ’ البیون ‘ جو 93 سال قبل متعارف کرائی گئی تھی ۔ اس بس کو ’ دکن کوئین ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ یہی وہ پہلی بس تھی جو نظام دور حکومت میں شہر کی سڑکوں پر دوڑی تھی ۔ 93 سال گذرنے کے باوجود یہ تاریخی بس آج بھی اُپل زونل ورکشاپ میں محفوظ ہے ۔ ناگی ریڈی نے تلنگانہ آر ٹی سی کے منیجنگ ڈائرکٹر کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اس نایاب یادگار کو آر ٹی سی کراس روڈ بس اسٹاپ پر نمائش کے لیے رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تاریخی بس شہریوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں جو مسافر نامپلی اسٹیشن پر اترتے تھے وہ اپنے سروں پر سامان اٹھا کر پیدل چلتے ہوئے اپنے گاوں کو جاتے تھے ۔ نظام خاندان کی زہرا بیگم نے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنے کے لیے اپنے زیورات کو فروخت کرتے ہوئے تقریبا 3.7 لاکھ روپئے خرچ کر کے برطانیہ سے 27 بسوں کو خریدا تھا ۔ یہ بسیں بحری جہاز کے ذریعہ ممبئی لائی گئی جہاں سے قاضی پیٹ ، نارکیٹ پلی ، کاچی گوڑہ کے راستے تقریبا 27 دن کے طویل سفر کے بعد حیدرآباد پہونچیں ۔ یہی وہ سفر تھا جس نے دکن کی سرزمین پر پبلک ٹرانسپورٹ کا پہلا پہیہ گھومایا تھا اور آج ’ دکن کوئین ‘ اس تاریخ کی خاموش گواہ بن کر وقت کو مات دے رہی ہے ۔ حیدرآباد کی پبلک ٹرانسپورٹ کی تاریخ میں ایک سنہری باب 18 اپریل 1932 کو لکھا گیا ۔ جب شہر کی سڑکوں پر پہلی بار بس سرویس کا آغاز ہوا پہلا روٹ چارمینار گلزار حوض سے رانی گنج تک مقرر کیا گیا اور یہی دن تھا جب ’ دکن کوئین ‘ نے اپنا پہلا تاریخی سفر شروع کیا ۔ یہ سرویس نظام اسٹیٹ ریل اینڈ روڈ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ (NSRRJD) کے تحت شروع ہوئی جس نے صرف چند برسوں میں ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ ادارے کی شکل اختیار کرلی ۔ اس وقت ادارے میں 166 عملہ ارکان کام کررہے تھے ۔ جنہوں نے شہر کے روزمرہ سفر کو ایک نئی سمت دی ۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دور میں خریدی گئی بسوں کے نمبر پلیٹس پر انگریزی حرف ’ Z ‘ نمایاں ہوتا تھا جو آج بھی زہرا بیگم کی قربانی اور خدمت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ زہرہ بیگم نے عوامی سہولت کے لیے اپنے زیورات فروخت کر کے یہ خواب پورا کیا اور یہی ایثار حیدرآباد پبلک ٹرانسپورٹ کی بنیاد بن گیا ۔ برطانیہ سے منگوائی گئی 27 بسوں میں آج صرف 2 تاریخی بسیں باقی رہ گئی ہیں ۔ ایک وجئے واڑہ کے بس اسٹانڈ پر محفوظ ہے ۔ جب کہ دوسری اپل زونل ورکشاپ میں اپنی 93 سالہ تاریخ کے ساتھ آج بھی موجود ہے ۔ اس نایاب بس میں ڈرائیور اور کنڈاکٹر کے بشمول 19 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی ۔ ’ دکن کوئین ‘ نہ صرف ایک سواری تھی بلکہ ایک خواب ، ایک تاریخ اور ایک خاتون کی قربانی کی علامت ہے ۔ جو آج بھی وقت کے پہیوں کے ساتھ چل رہی ہے ۔۔