دھرم کے نام پہ لوگوں کو لڑایا نہ کرو

,

   

لوک سبھا چناؤ … دستور بمقابلہ ہندوتوا
مسلمان جاگو … ووٹ کا متحدہ استعمال ضروری

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کے مستقبل کو طئے کرنے کیلئے 285 لوک سبھا حلقوں کے رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ محفوظ کردیا ہے ۔ تین مراحل کی رائے دہی مکمل ہوگئی اور چوتھے مرحلہ کے تحت 10 ریاستوں کی 96 نشستوں کیلئے 13 مئی کو رائے دہی ہوگی۔ چوتھے مرحلہ کی 10 ریاستوں میں تلنگانہ اور آندھراپردیش شامل ہیں۔ جملہ 7 مراحل کی پولنگ کے بعد 4 جون کو عوامی فیصلہ کا اعلان ہوگا۔ ہر مرحلہ کے گزرتے سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے دل کی دھڑکن کا تیز ہونا فطری ہے۔ ہر پارٹی پرامید ہے کہ اسے عوام نے آشیرواد سے نوازا ہوگا۔ انتخابی مراحل کے آغاز سے ہی بی جے پی کیمپ کا حال بہت برا ہے۔ ’’اب کی بار 400 پار‘‘ کا نعرہ لگانے والے ہر مرحلہ میں مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی جن کو غرور ہے کہ ووٹ ان کا چہرہ دیکھ کر دیئے جاتے ہیں، اس بار ان کی مایوسی بوکھلاہٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ انسان کے اطمینان کی علامتیں مختلف ہوتی ہیں لیکن یہاں دعویٰ تو اطمینان جیسا ہے لیکن اندرونی خوف کا اظہار انتخابی مہم سے ہورہا ہے ۔ مودی ۔ امیت شاہ کے تیور بتا رہے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے بھی شائد وفا نہیں کی ہے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی کا سارا انحصار الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر ہے جو گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی دلاچکے ہیں۔ پہلے مرحلہ کے تحت 19 اپریل کو 21 ریاستوں کی 102 لوک سبھا حلقوں میں رائے دہی کے اختتام کے ساتھ ہی مودی اینڈ کمپنی کا رویہ تبدیل ہونے لگا۔ کل تک مودی گیارنٹی کی بات کرنے والے اچانک ہندو ۔ مسلم ، مندر ، مسجد ، مسلم تحفظات ، اورنگ زیب ، پاکستان اور منگل سوتر کی بات کرنے لگے۔شائد پہلے مرحلہ کے رجحانات توقع کے مطابق نہیں تھے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلہ کے بعد تو نریندر مودی جیسے آپے سے باہر ہوگئے اور انتخابی تقاریر میں شائد وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دراصل انسان جب توقع کے مطابق نتائج کے حصول میں ناکام ہوجائے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے ۔ مودی اور بی جے پی کی بوکھلاہٹ کی بنیاد پر سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے اندازہ قائم کیا کہ ابتدائی تین مراحل توقع کے برخلاف رہے۔ بی جے پی نے گودی میڈیا کے تمام اینکرس کو میدان میں اتاردیا اور بی جے پی آئی ٹی سیل کے ذریعہ سوشیل میڈیا میں یہ تاثر دیا جانے لگا کہ ملک میں چوکیدار اور پردھان سیوک کا سکہ چل رہا ہے۔ چاٹوکار اینکرس دعوے تو کر رہے تھے لیکن چہرہ پر اطمینان نہیں تھا۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے جس انداز میں انتخابی مہم میں نفرت کا زہر گھول دیا وہ نتائج سے قبل شکست قبول کرنے کے مترادف ہے۔ کیا واقعی عوام نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے یا پھر یہ سب کچھ اپوزیشن کو خواب غفلت کا شکار کرنے کی چال ہے۔ چوتھے مرحلہ کے تحت 13 مئی کو 10 ریاستوں کی 96 نشستوں کے چناؤ کی تکمیل کے بعد 381 نشستوں کا فیصلہ ای وی ایم میں محفوظ ہوجائے گا جو مجموعی نشستوں میں تقریباً 60 فیصد ہوں گے۔ اگر چاروں مراحل بی جے پی کے خلاف جاتے ہیں تو مرکز میں اقتدار بھی خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ مودی اور سنگھ پریوار ہار ماننے والے کہاں ہے، انہوں نے رام مندر ، مسلم تحفظات ، پاکستان ، سی اے اے ، این آر سی ، یکساں سیول کوڈ جیسے حساس مسائل کے ذریعہ اپوزیشن کو مخالف ہندو ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ حیرت تو نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ پر ہے جن کا کچھ حصہ مودی کے ہندوتوا ایجنڈہ کی تائید میں دکھائی دے رہا ہے ۔ اکثریتی طبقہ کی عام آبادی کے روبرو مودی کو ہندو دھرم کے محافظ کے طور پر پیش کیا گیا ۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے نریندر مودی نے نہ صرف دستور کی پاسداری کا حلف توڑدیا بلکہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور اس کا ضابطہ اخلاق صرف اپوزیشن کیلئے ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ ویسے بھی بابری مسجد اور گیان واپی مسجد کے بارے میں عدلیہ کے فیصلوں سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ مرکزی حکومت عدلیہ پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے، وہ سپریم کورٹ اور مختلف ریاستوں کی ہائی کورٹس میں دیکھنے کو ملا۔ مذہب کا نام لے کر مخصوص فرقہ کو برا بھلا نہیں کہا جاسکتا لیکن نریندر مودی نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور ہندوؤں کے اثاثہ جات کے لٹیروں سے تعبیر کیا۔ متحدہ آندھراپردیش میں مسلمانوں کے 4 فیصد تحفظات مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دیئے گئے تھے۔ مرکز میں معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے لئے 10 فیصد تحفظات کا اعلان کیا گیا اور اس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ نریندر مودی ملک کی تمام ریاستوں میں گھوم کر مسلم تحفظات کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن آندھراپردیش میں ان کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ بی جے پی کی حلیف تلگو دیشم نے نہ صرف تحفظات کی برقراری کا وعدہ کیا بلکہ سپریم کورٹ میں سینئر وکلاء کے ذریعہ تحفظات کے حق میں پیروی کا اعلان کیا۔
لوک سبھا کی انتخابی مہم کے ذریعہ بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈہ کی خوب تشہیر کی ہے۔ الیکشن جو عام طور پر عوامی مسائل کی بنیاد پر لڑا جاتا تھا ، اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ۔ ہندوستان کی انتخابی مہم سیکولرازم بمقابلہ فرقہ پرستی ، دستور بمقابلہ ہندوتوا ، ظلم بمقابلہ انصاف ، جمہوریت بمقابلہ ڈکٹیٹرشپ اور نفرت بمقابلہ محبت میں تبدیل ہوچکی ہے اور الیکشن میچ کی دو ٹیموں کے کپتان نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان اصل مقابلہ ہے۔ نریندر مودی نے اچانک اپنے صنعت کار ساتھیوں اڈانی اور امبانی کا نام لے کر ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کانگریس پر اڈانی اور امبانی سے الیکشن فنڈ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اڈانی اور امبانی نریندر مودی کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے کیونکہ مودی نے ان پر جو مہربانیاں کی ہیں ، ان کا احسان کبھی چکایا نہیں جاسکتا۔ اڈانی اور امبانی کو ملک کے تمام اہم عوامی اثاثہ جات حوالے کردیئے گئے ۔ ہندوستان اور دنیا کے دولتمند ترین افراد میں شامل ہونے کے باوجود اڈانی اور امبانی نریندر مودی سے پنگا لینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ آخر ایسی کیا بات ہوگئی کہ نریندر مودی نے اڈانی اور امبانی کو کانگریس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ کیا واقعی بی جے پی سے دونوں کی دوری ہوچکی ہے یا پھر ان دونوں سے الیکشن فنڈ کیلئے دباو بنانے کی ایک حکمت عملی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی نے جان بوجھ کر اڈانی اور امبانی کا نام لیا۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں نے کسی معاملہ میں مودی کی ہدایت پر عمل نہیں کیا ہے، لہذا انہیں عوام کی عدالت میں کانگریس کو فنڈس فراہم کرنے والوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ۔ الیکشن میں جہاں تک سیکولر اور مسلم رائے دہندوں کے موقف کا سوال ہے ، ابھی تک ملک میں مسلمانوں کا کوئی مرکزی پلیٹ فارم نہیں جو سارے ملک کی رہنمائی کرسکے۔ مذہبی اعتبار سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ واحد نمائندہ ادارہ ہے لیکن اس نے عملی سیاست سے خود کو دور کرلیا ہے۔ شریعت اور اسلام میں سیاست اور مذہب جداگانہ نہیں ہے۔ شرط صرف یہی ہے کہ شریعت کے عین مطابق سیاست کی جائے۔ ملک کے موجودہ حالات میں مسلم رائے دہندوں کو رہنمائی کی شدید ضرورت ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں نے ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ کامیابی کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ ہندوستان کے کسی بھی شہر میں مسلم رائے دہندوں کا ووٹ فیصد 30 تا 40 فیصد درج کیا جاتا رہا۔ جاریہ الیکشن ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے اور ایسے میں مسلم اور سیکولر رائے دہندوں کے ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے ۔ سیاسی اور مذہبی سطح پر مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے کوئی جماعت یا شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ بعض مذہبی علماء انفرادی سطح پر مسلمانوں میں رائے دہی سے متعلق شعور بیداری مہم میں مصروف ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان الیکشن کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف متحدہ رائے دہی کو یقینی بنائیں بلکہ ووٹ فیصد میں کم از کم 60 تا 70 فیصد تک اضافہ کریں تاکہ ملک کے مستقبل کے فیصلہ میں ان کی حصہ داری ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو ہمیشہ کی طرح ووٹ بینک تصور کر رہی ہیں اور مسلمانوں سے رجوع ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کر پارہے ہیں۔ اگر سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کریں گی تو مسلم رائے دہی میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کا الیکشن دراصل دو نظریات کی جنگ ہے اور اگر اس مرتبہ فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے قدم نہیں روکے گئے تو مسلمانوں کو پچھتانا پڑے گا۔ مسلمانوں کو قومی سطح پر قیادت کا خلاء پر کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے سابق میں سکنڈ گریڈ لیڈرشپ تیار نہیں کی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ نفرت پرمبنی انتخابی مہم پر منظر بھوپالی نے کچھ یوں مشورہ دیا ہے ؎
راج کرنا ہے کرو آگ لگایا نہ کرو
دھرم کے نام پہ لوگوں کو لڑایا نہ کرو