دھوج گاؤں کی مساجد، دکانوں، ہوٹلوں اور گھروںکی تلاشی سے عوام میں خوف کا ماحول
فرید آباد۔22؍نومبر( ایجنسیز) ہریانہ پولیس نے دہلی لال قلعہ دھماکے کی جاری تحقیقات کے حصے کے طور پر تلاشی مہم تیز کردی ہے۔ کرائم برانچ اور مقامی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے ہفتہ کو دھوج گاؤں میں مساجد، دکانوں، ہوٹلوں، گھروں اور گوداموں کا معائنہ کیا جس سے مکینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے بتایا کہ کئی گاؤں والوں کو پوچھ تاچھ کے لیے حراست میں لیا گیا جن میں سروہی مسجد کے امام، امام الدین بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق امام سے پہلے بھی دو بار پوچھ تاچھ کی جا چکی ہے کیونکہ دو مشتبہ دہشت گرد ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر مزمل اکثر مسجد میں آتے جاتے تھے۔حکام نے بتایا کہ تازہ ترین کارروائی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے پہلے اسی گاؤں میں تلاشی لینے کے بعد کی ہے اور ایک گھر سے یوریا پیسنے والی مل اور امونیم نائٹریٹ کو صاف کرنے اور الگ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ایک الیکٹرانک مشین برآمد ہوئی ہے۔ پولس نے کہا کہ پلہ، سرائے خواجہ، بلبھ گڑھ اور سورج کنڈ علاقوں تک چھاپوں کا دائرہ وسیع کرنے کے بعد مزید نوجوانوں کو دہلی دھماکہ کیس سے متعلق پوچھ تاچھ کیلئے حراست میں لیا گیا ہے۔ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ دہلی دھماکوں کا تعلق ہریانہ کے فرید آباد میں الفلاح یونیورسٹی سے تھا جس کے بعد حکام نے اس کیس کے سلسلے میں ڈاکٹر مزمل، ڈاکٹر شاہین، لیب ٹیکنیشن باسط اور وارڈ بوائے شعیب کو گرفتار کیا تھا۔
قبل ازیں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے الفلاح ٹرسٹ کے چیئرمین جاوید احمد صدیقی کو گرفتار کیا تھا اور عدالت نے انہیں 13 دن کیلئے ای ڈی کی تحویل میں دے دیا تھا۔ انہیں 18 نومبر کو حراست میں لیا گیا تھا۔