نئی دہلی: شمالی مشرقی دہلی میں ہوئے حالیہ فسادات کے دوران قومی یکجہتی‘ آپسی بھائی چارہ اور انسانیت کی جو تصویر بن کر سامنے آئی ہے اس سے فرقہ پرستوں اور حملہ آوروں کے کے حوصلہ پست ہوگئے۔ ملک کے دانشوران و علماء کرام نے یک زبان ہوکر کہا کہ یہ ملک کی جمہوریت پر حملہ تھا۔ یہ حملے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے اتحاد کو توڑ نے کیلئے کیاگیا تھا لیکن شر پسند عناصر کو ناکامی دیکھنا پڑا۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ گذشتہ 70 سالوں میں ہندو مسلم کی اتحاد کی اتنی اعلی مثال دیکھنے میں نہیں آئی۔ ان فسادات کے دوران ہندو مسلم ایک دوسرے کی حفاظت کرتے نظر آئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مسلم فساد نہیں چاہتے ہیں بلکہ یہ سیاسی مفاد کیلئے کروائے گئے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے سبب یہ سب کچھ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس کو گرفتار کیا جاتا لیکن اس سخت سکیوریٹی فراہم کی گئی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان فسادات میں بی جے پی کا ہاتھ ہے۔۔جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے کہا کہ کامیابی کے بعد وزیر اعلی دہلی اردوند کیجریوال نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ یہ نئی سیاست کا آغازہے۔ کام کی کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فرقہ وارانہ طریقہ سے باہر سے لوگ بلوائے گئے اور ہند مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔
مولانا مفتی مکرم نے نے کہا کہ ہندومسلم اتحاد کو توڑنے کیلئے یہ فسادات کروائے گئے ہیں لیکن کامیابی نہیں مل پائی کیونکہ یہاں آپسی تعلقا ت بہت مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سازشوں کے ماحول میں بھی اچھی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ہندووں نے مسجدیں بچائی تو مسلمانوں نے مندروں کی حفاظت کی۔