دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

   

گستاخانہ کارٹونس … فرانس کو مودی کی تائید
ملک کی روایات سے انحراف… ہندوتوا ایجنڈہ کا جنون سوار

رشیدالدین

پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں اُن کا چرچا کل بھی تھا اورآج بھی ہے
قارئین کو شعر پڑنے کے بعد بخوبی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ہمارا موضوعِ گفتگو کیا ہے۔ موضوع کی اہمیت اور مناسبت کو دیکھتے ہوئے روایت سے انحراف اور تحریر کا آغاز شعر پر کیا گیا ۔ فرانس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت نے دنیا بھر میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انصاف پسند اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ الجھاکر رکھتے ہوئے ترقی سے دور رکھنے وقفہ وقفہ سے نت نئے انداز میں سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ پیغمبر اسلام اور محسن انسانیت کی شخصیت اور مقام و مرتبہ کو کوئی کم کیسے کرسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ یعنی ائے حبیب ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا ہے ۔ جب خالق کائنات نے اپنے حبیب کا ذکر بلند کیا تو پھر ساری دنیا بھی مل کر مقام و مرتبہ میں کمی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ فرانس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت کی جتنی مذمت کی کی جائے کم ہے لیکن فرانس کی حکومت کی جانب سے گستاخانہ کارٹونس کی تائید کرنا دراصل اپنی تباہی اور قہر خداوندی کو دعوت دینا ہے۔ وقفہ وقفہ سے دنیا کے الگ الگ حصوں میں اس طرح کے گستاخ سر اٹھاکر مسلمانوں کے صبر اور غیرت ایمانی کا امتحان لیتے رہے ہیں۔ کبھی سلمان رشدی تو کبھی تسلیمہ نسرین کی شکل میں ناپاک چہروں کو اسلام کا مذاق اڑانے کیلئے آگے کردیا جاتا ہے ۔ یہ دونوں گستاخ اگرچہ زندہ ہیں لیکن زندگی موت سے بدتر ہے ۔ لمحہ لمحہ خوف کے عالم میں زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔ قریب میں کوئی پرندہ بھی پر مارے تو آواز سے گھبراکر موت آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے ۔ ایسے گستاخوں کی سرپرستی اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کی جانب سے ہر دور میں کی گئی ہے ۔ بنگلہ دیش سے راہِ فرار اختیار کرنے والی ملعون مصنفہ تسلیمہ نسرین کو ہندوستان میں پناہ دی گئی۔ اسی طرح پاکستانی نژاد ایک اور گستاخ طارق فتح کو ہندوستان نے سہارا دیا ۔ کوئی بھی پاکستانی ، ہندوستان کے لئے قابل قبول نہیں ہے لیکن اسلام اور شریعت کا مذاق اڑاتے ہوئے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی تکمیل کرنے والے کو سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور قومی ٹی وی چیانلس پر اہمیت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔ بات فرانس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت کی چل رہی تھی جس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ عرب اور اسلامی دنیا کا احتجاج تو فطری ہے لیکن کئی غیر اسلامی ممالک نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کو اظہار خیال کی آزادی کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انسان کی عزت نفس کا یہ عالم ہے کہ کسی شخص کے ماں باپ یا اس کی کسی محبوب شخصیت یا پھر خود اس کی بے عزتی اور توہین کی جائے تو مرنے مارنے کیلئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ انسانیت ہی نہیں بلکہ خدا کے محبوب کا ہے، اس پر خاموشی ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جس وقت دنیا بھر میں فرانس کی مذمت کی جارہی تھی ، ہندوستان نے فرانس کے موقف کی تائید کی۔ نریندر مودی حکومت نے ملک کی عظیم روایات کو پامال کرتے ہوئے مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے مذاہب کے احترام کے اصولوں سے انحراف کرلیا ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری ہندوستان کی بنیاد ہے اور ہر ہندوستانی کی زندگی کا لازمی جز ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے اور دوستوں سے انسانی شخصیت کی پہچان ہوتی ہے۔ اپنی خصلت اور عادات و اطوار کے لوگوں میں دل بہلتا ہے ۔ ’’کبوتر با کبوتر باز با باز‘‘ کے مصداق نریندر مودی حکومت نے دستور اور روایات پر ہندوتوا ایجنڈہ کو ترجیح دی ہے ۔ فرانس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے مودی حکومت نے دراصل اسلام دشمن طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ہندوستان میں مذاہب اور عقائد کے احترام کا یہ عالم ہے کہ ’’ہریجن‘‘ کو اس کی ذات کے نام سے پکارا نہیں جاسکتا بلکہ دلت کہنا پڑتا ہے۔ ذات کے نام سے دلت کو گالی دینا ناقابل ضمانت جرم ہے۔ جب ایک ذات والوں کو دستور میں تحفظ فراہم کیا ہے تو پھر کسی کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے گستاخی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ کسی بھی مذہب کا ماننے والا دوسرے مذاہب اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف گستاخی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ نریندر مودی ہندو دھرم سے تعلق کا اظہار کرتے ہیں لیکن فرانس کی تائید سے قبل انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اگر دیوی دیوتاؤں کے ساتھ کوئی ایسی حرکت کرے تو کیا برداشت کیا جائے گا؟ یقیناً نہیں۔ صرف ہندو نہیں بلکہ مسلمان بھی اس کی تائید نہیں کریں گے ۔ یہی سوال نامور شاعر منور رانا نے کیا تو ان کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ بھوپال میں ایک مسلم رکن اسمبلی نے فرانس کے خلاف احتجاج کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایم ایف حسین کی بعض پینٹنگس پر جو دیوی دیوتاؤں سے متعلق تھیں، اس قدر ہنگامہ ہوا کہ ایم ایف حسین کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور مرنے تک بھی وہ جلا وطن رہے ۔ مرنے کے بعد بھی مادر وطن کی دو گز زمین نہیں ملی۔ کوئی بھی کٹر مذہبی شخص دوسروں کے مذاہب کے خلاف مہم کی تائید نہیں کرے گا لیکن حیرت ہے کہ ملک میں رام راج ، ہندو راشٹر اور ہندوتوا کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کی حکومت نے فرانس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور تمام مذاہب کا احترام کے نعروں کا کیا ہوا ؟ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت کثرت میں وحدت والے ملک کی حیثیت سے ہے۔ حساس مسئلہ پر ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے جذبات کا احترام کرنے کے بجائے مودی حکومت نے ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے ایجنڈہ پر عمل کیا۔ سنگھ پریوار کا ایجنڈہ اسلام اور مسلمانوںکی مخالفت ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی اس ذہنیت کے عناصر پائے جائیں وہ بی جے پی کے فطری حلیف ہیں۔ دیگر ممالک اور بیرونی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہو تو نریندر مودی ہندوستان میں امن ، بھائی چارہ ، رواداری اور باہمی محبت کے ماحول کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اندرونی طور پر ملک کی ان عظیم روایت کو پامال کیا جارہا ہے ۔

مودی حکومت کی دوسری میعاد میں جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کو تیزی کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مودی اور ان کے ساتھیوں نے ہر سطح پر ہندوتوا ایجنڈہ کا پرچار شروع کردیا ہے ۔ بہار کے اسمبلی انتخابات میں مودی نے فرقہ پرستی کو ایجنڈہ بنایا ۔ ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے بجائے رام مندر، کشمیر کی دفعہ 370 ، طلاق ثلاثہ اور شہریت ترمیمی قانون جیسے متنازعہ مسائل کو پیش کیا گیا۔ بی جے پی نے انتخابی مہم میں سنگھ پریوار کے برانڈ ایمبسیڈر یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا جو اپنی زہریلی تقاریر کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ نے بہار کی انتخابی مہم کو زہر آلود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ نتیش کمار بی جے پی کی مہم کا جواب دیتے ہوئے اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ ان دنوں مغربی بنگال کی سیاست پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے تین دن تک مغری بنگال کا دورہ کیا اور 2021 انتخابات میں بی جے پی کے ایجنڈہ کو قطعیت دی۔ امیت شاہ بہار کی مہم میں دکھائی نہیں دیئے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی انہیں منصوبہ بند طریقہ سے راستہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ کے بغیر بہار کی مہم ادھوری ضرور تھی لیکن وہ اچانک مغربی بنگال میں نمودار ہوگئے جہاں بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ شہریت ترمیمی قانون کا بنگال میں خوب پرچار کیا جارہا ہے لیکن ممتا بنرجی سے لوہا لینا امیت شاہ کے بس کی بات نہیں۔ بی جے پی نے مغربی بنگال کے لئے جو ایجنڈہ تیار کیا ہے ، اس میں سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو شامل کیا گیا تاکہ بنگلہ دیش سے آنے والے شہریوں کو غیر ملکی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی تیاری کی جائے ۔ مغربی بنگال کے عوام روایتی طور پر بائیں بازو اور سیکولر نظریات کے حامل ہیں، ان کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کی طرف مائل نہیں کیا جاسکتا۔ امیت شاہ ہو کہ نریندر مودی بنگال میں بی جے پی کے اچھے دن کبھی بھی نہیں لاپائیں گے۔ ویسے بھی ملک بھر میں نریندر مودی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ انسان تو انسان پرندے بھی مودی کے قریب آنے سے کترا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں گجرات کے دورہ کے موقع پر مودی نے طوطے کو ہاتھ پر بٹھانے کی لاکھ کوشش کی لیکن وہ مودی سے دور بھاگتا رہا۔ اسلام کے گستاخوں کو سید صبیح رحمانی نے کچھ اس طرح پیام دیا ہے ؎
بتلادو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے